ان کی آمد سے میں شاداں ہو گیا
ان کی آمد سے میں شاداں ہو گیا
آتے ہی ہر سو چراغاں ہو گیا
دل نے آہستہ کہا مجھ سے یہی
اب تو وصل جان جاناں ہو گیا
عشق جو اس بے وفا سے ہو گیا
دل کے بہلانے کا ساماں ہو گیا
حسن جو دیکھا بت بیداد کا
جو بھی تھا اس کا ثنا خواں ہو گیا
اللہ اللہ حسن کا کہنا ہے کیا
مہر و مہ بھی اس سے تاباں ہو گیا
وہ گئے اور درد فرقت دے گئے
جاتے جاتے دیدہ گریاں ہو گیا
چوٹ اک دل پر لگی ٹکڑے ہوا
دیدہ میرا اشک باراں ہو گیا
اشک جو نکلا فراق یار میں
گال پر آیا تو مرجاں ہو گیا
جب ملا مجھ کو نہ احقرؔ شغل کچھ
بزم میں آ کر غزل خواں ہو گیا