الفت کے فسانے ماضی کے کچھ بھولے کچھ یاد آ بھی گئے

الفت کے فسانے ماضی کے کچھ بھولے کچھ یاد آ بھی گئے
غم کے بادل دل پہ مرے کچھ چھٹ بھی گئے کچھ چھا بھی گئے


جب عشق کی وادی میں ہم تم لے کر ہاتھوں میں ہاتھ چلے
گو خار بھی الجھے دامن میں کچھ لمحے گل برسا بھی گئے


جب راز محبت مجھ سے سنا کچھ وہ بھی پسیجے دم بھر کو
چپ رہتے ہوئے کچھ کہہ بھی گئے اور کہتے ہوئے کترا بھی گئے


بازی میں محبت کی اکثر کچھ مرحلے ایسے آئے ہیں
جب جیت کے بھی ہم ہار گئے اور ہار کے ہم کچھ پا بھی گئے


وہ آئے اور کچھ حال نہ پوچھا دل کا درد بھی کچھ نہ سنا
یوں دیکھ کہ ان کو دل کے کنول کچھ کھل بھی گئے مرجھا بھی گئے


الجھی سی ہیں عشق کی راہیں جوکھم سی کچھ عشق کی منزل
ان راہوں میں کچھ کھو بھی گئے اور منزل کو کچھ پا بھی گئے


گو لاکھ جتن ہم نے بھی کئے پر قلب کی تسکیں ہو نہ سکی
ارمانوں سے دل خالی نہ ہوا کچھ گھٹ بھی گئے کچھ پا بھی گئے


کیا جانے ہم کیا کہہ بیٹھے وہ کہہ نہ سکے جو کہنا تھا
ہم پیار کے تانے بانے کو سلجھا بھی گئے الجھا بھی گئے


یہ حسن کی مستی ان کی حبیبؔ یہ کیا ہی انوکھی مستی ہے
کچھ خود بھی ہوئے بے خود اس سے کچھ بے خود ہم کو بنا بھی گئے