اداسی کے جزیرے پر غموں کے سائے گہرے ہیں

اداسی کے جزیرے پر غموں کے سائے گہرے ہیں
نگاہوں کے سمندر میں لہو رنگ اشک ٹھہرے ہیں


کہیں تنہائیوں نے وحشتوں سے دوستی کر لی
کہیں دل پر گزشتہ موسموں کے اب بھی پہرے ہیں


کہیں برکھا کی رت نے دل کی دنیا خوں میں نہلا دی
کہیں ویران راہوں پر قدم صدیوں سے ٹھہرے ہیں


سجایا ہے کہیں آنکھوں نے خود کو ماہ و انجم سے
اسی امید پر کہ آنے والے دن سنہرے ہیں


بھروسا کر تو لوں لیکن بتاؤ کس پہ کرنا ہے
کہ ہر چہرے کے پیچھے ہی نہ جانے کتنے چہرے ہیں