تو سمجھتا ہے حوادث ہیں ستانے کے لیے

تو سمجھتا ہے حوادث ہیں ستانے کے لیے
یہ ہوا کرتے ہیں ظاہر آزمانے کے لیے


تندیٔ باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لیے


کامیابی کی ہوا کرتی ہے ناکامی دلیل
رنج آتے ہیں تجھے راحت دلانے کے لیے


چرخ کج‌ رفتار ہے پھر مائل جور و ستم
بجلیاں شاہد ہیں خرمن کو جلانے کے لیے


نیم جاں ہے کس لیے حال خلافت دیکھ کر
ڈھونڈ لے کوئی دوا اس کو بچانے کے لیے


چین سے رہنے نہ دے ان کو نہ خود آرام کر
مستعد ہیں جو خلافت کو مٹانے کے لیے


دست و پا رکھتے ہیں اور بیکار کیوں بیٹھے رہیں
ہم اٹھیں گے اپنی قسمت کو بنانے کے لیے