تو اگر غیر ہے نزدیک رگ جاں کیوں ہے

تو اگر غیر ہے نزدیک رگ جاں کیوں ہے
نا شناسا ہے تو پھر محرم پنہاں کیوں ہے


ہجر کے دور میں ہر دور کو شامل کر لیں
اس میں شامل یہی اک عمر گریزاں کیوں ہے


آج کی شب تو بجھا رکھے ہیں یادوں کے چراغ
آج کی شب مری پلکوں پہ چراغاں کیوں ہے


اور بھی لوگ ہیں موجود بیابانوں میں
دست وحشت میں فقط میرا گریباں کیوں ہے


دل تو مدت سے کڑی دھوپ میں جلتا ہے ظہیرؔ
آگ برساتا ہوا ابر بہاراں کیوں ہے