ترکیہ نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات دوبارہ کیوں بحال کیے ہیں؟

رواں ہفتے بدھ  کے دن اسرائیلی وزیر اعظم یئر لیپرڈ کے دفتر سے ترکیہ کے ساتھ سفارتی تعلقات بحال ہونے کا اعلان   سامنے آیا۔ اعلان میں بتایا گیا ہے کہ دونوں ممالک اپنے اپنے  سفراء اور دیگر  کاؤنسل جنرلز کو ایک دوسرے  کے ممالک میں بھیج کر  اپنے سفارتی تعلقات کو مکمل طور پر بحال کریں گے۔ اعلان میں مزید بتایا گیا کہ یہ فیصلہ اسرائیلی  وزیراعظم یئر لیپرڈ اور ترکی صدر طیب اردگان کے مابین بات چیت کے بعد طے پایاہے۔

 بعد میں  ترک وزیر خارجہ نے بھی اس اعلان کی تائید کی لیکن کہا کہ ترکیہ  فلسطینیوں کی حمایت نہیں چھوڑے گا۔ ان کی فلسطین پر پالیسی اب بھی وہی ہے  جو کہ سفارتی تعلقات سے نہیں بدلے گی۔  گو کہ ترکیہ کے اسرائیل کے ساتھ  تعلقات بحال ہونے پر غزہ میں  حماس حکومت کی جانب  سے کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا  تاہم یہ اندازہ ضرور لگایا جا سکتا ہے کہ وہ کسی قدر بھی اس پیش  رفت پر خوش نہیں ہوگی۔ حماس اور دیگر مزاحمتی تحاریک کی جانب سے مارچ میں  اسرائیلی صدر اسحاق ہرزوک   کا دورہ ترکیہ خاصی خشمگیں نگاہوں سے دیکھا گیا تھا، جس کا اظہار بھی تنقید کی شکل میں سامنے آیا تھا۔  لیکن اردگان حکومت نظر انداز کرتے ہوئے آگے بڑھ گئی تھی۔  مئی میں ترک وزیرخارجہ مولود چاوش اولو اسرائیل گئے اور جون میں اسرائیلی وزیر اعظم یئر لیپرڈ ترکی آئے۔ یوں سفارتی تعلقات بحال ہونے کی خبر سامنے آ گئی۔

ترکیہ نے اسرائیل سے  سفارتی تعلقات  کیوں بحال کیے؟

عالمی حالات پر نظر رکھنے والے ماہرین کے نزدیک ترکیہ اور اسرائیل کے درمیان سفارتی تعلقات مکمل بحال ہونا کوئی اچھنبے کی بات نہیں۔ اس کی تاریخی، معاشی اور  علاقائی سیاست کی بنیاد پر کھڑی  ٹھوس وجوہات ہیں ۔ مزید یہ کہ اپنے سخت معاشی حالات کے پیش نظر پچھلے کچھ عرصے میں  اسلامی دنیا کی سیاست میں اردگان صاحب نے حلیفوں کی فہرست میں تبدیلی کی ہے۔ ہم تمام وجوہات کو مختصر طور پر دیکھنے کی کوشش  کریں گے۔ بعد میں یہ بھی دیکھیں گے کہ اسرائیل ان تعلقات کےحوالے سے  اتنا متحرک  کیوں نظر آ رہا تھا کہ  صرف تین ماہ کے دوران صدر اور وزیر اعظم اسکے ترکی جا پہنچے۔ ایسی پھرتی ابراہم اکارڈ کے وقت متحدہ عرب عمارات، بحرین  اور سوڈان سے تعلقات میں تو نہیں تھی۔ حالانکہ وہ پہلی بار اسرائیل سے  تعلقات بحال کر رہے تھے۔

تاریخی وجہ:

ترکیہ اسلامی دنیا میں وہ پہلا ملک تھا جس نے سب سے پہلے 1049 میں اسرائیل سے تعلقات بحال کیے۔ تب سے لے کر اب  تک ترک   اسرائیلی تعلقات کو دو ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ 2002 میں طیب اردگان صاحب کی جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کے برسر اقتدار آنے سے پہلے کا دور اور پھر بعد کا۔

  2002  سے پہلے کے دور میں  ترکی بطور امریکی اتحادی مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کا حمایتی رہا۔ اسرائیل کو خوراک بہم پہنچانے میں ترکی کی جانب سے خاصی سہولت دستیاب تھی۔ پھر دونوں ممالک میں خاصا عسکری تعاون  بھی موجود تھا۔  1996 میں دونوں ممالک میں  عسکری معاہدہ بھی سامنے آیا۔ 1966 میں تعلقات کشیدگی کا شکار بھی ہوئے تاہم 2002 تک ٹھنڈے گرم جاری رہے۔  اس دوران  تجارت ، سیاحت، زراعت اور دیگر اہم شعبہ جات میں خوب تعاون جاری رہا۔ 2002 میں اردگان صاحب کی پارٹی اقتدار میں آئی تو ترکی نے مزید شدومد سے فلسطینی حمایت  شروع کر دی اور  اسرائیل کو لتاڑنا بھی۔

Israeli diplomat confirms Turkey giving citizenship to Hamas members | The  Times of Israel

 2007 میں غزہ میں حماس برسراقتدار آئی تو اسرائیل نے  غزہ کی پٹی کی ناکہ بندی کر دی  جو آج تک جاری ہے۔ ترک صدر اردگان  فلسطینیوں کی حمایت میں سخت بیانات جاری کرتے رہے۔ 2007 ہی میں اسحاق ہرزوک سے پہلے آخری اسرائیلی صدر ترکی گئے تھے۔ 2010 میں  ترکیہ اور اسرائیل کے مابین سفارتی تعلقات تقریباً ٹوٹ گئے جب ترکیہ کے بحری جہازوں پر اسرائیلی کمانڈوز نے حملہ کیا اور دس افراد جاں بحق ہو گئے۔ یہ جہاز اسرائیلی  ناکہ بندی توڑ کر غزہ  کے مقید انسانوں کے لیے خوراک اور   طبی امداد لے جا رہے تھے۔

 2016 میں ترک اسرائیل تعلقات بحال ہوئے جب اسرائیل نے  غالباً بیس ملین ڈالر بطور تلافی دیے۔ اس پر ترکیہ نے اسرائیلی کمانڈوز کے خلاف کیسز بھی ختم کر دیے۔ لیکن 2018 میں سفارتی تعلقات مکمل ختم ہو گئے جب ڈونلڈ ٹرمپ نے بیت المقدس کو اسرائیلی داراحکومت تسلیم کرتے ہوئے امریکی سفارت خانہ بیت المقدس منتقل کرنے کا فیصلہ کیا۔ تب سے لے کر اب تعلقات بحال ہوئے ہیں۔

یہ تمام تاریخی ٹائم لائن آپ کو بتا رہی ہے کہ ترک اسرائیل تعلقات کبھی بھی ختم ہو کر بھی  ختم نہیں ہوئے۔اردگان صاحب کے پورے دور  میں اسرائیل سے تعلقات بنتے بگڑتے رہے ہیں۔ کیونکہ نصف صدی کے تعلقات میں دونوں ممالک ایک دوسرے سے خاصے مفادات وابستہ کر چکے ہیں، اسی لیے اسرائیل نے بیس ملین ڈالر دے کر ترکی سے تعلقات بحال کیے اور اس کے باوجود کہ طیب اردگان صاحب جانتے ہیں کہ ان کی شخصیت کا تاثر اسلامی دنیا میں خراب ہوگا ،انہوں نے کبھی بھی اسرائیل سے تعلقات قائم نہ کرنے کا نہیں کہا۔ انہوں نے اسرائیل سے تعلقات کو فلسطین پر پالیسی سے علیحدہ رکھا ہے۔ 

معاشی و سیاسی وجوہات:

عالمی میڈیا کے مطابق ترکیہ اس وقت سخت معاشی دور سے گزر رہا ہے۔ مہنگائی کی شرح ترکی میں دوہرے اعداد میں ہے اور ترکی کرنسی بھی کمزور ہوتی جا رہی ہے۔

 اس بنا پر اردگان صاحب نے عالمی سیاست میں اپنے حلیفوں کی فہرست میں تبدیلی کی ہے۔ اردگان صاحب مشرق وسطیٰ کے خطے میں مزاحمتی تحاریک کے پشت پناہ نظر آ رہے تھے۔ اسی لیے انہوں نے مصر  کی اخوان   المسلمون، شام کی الاخوان اور مصر کی حماس جیسی تحاریک کے بہت سے کارکنان اور  سرکرداں رہنماؤں کو بھی تحفظ دے رکھا تھا۔ 2020 میں تو اردگان صاحب نے موجودہ حماس سربراہ اسماعیل ہانیا سے ملاقات بھی کی تھی۔ جس پر امریکی خوب تلملائے تھے۔ ترکیہ کے اس رویے پر عرب کی بادشاہتیں، سیسی اور بشارالاسد جیسے ظالم آمر خوب نالاں تھے۔ اوپر سے 2017  میں سعودی عرب نے قطر کو نافرمانی کی  پاداش میں قبضانہ  چاہا تو طیب اردگان صاحب قطر کی حفاظت کو آن دھمکے۔ پھر جمال خشوگجی کے قتل پر اردگان صاحب نے محمد بن سلمان کے خلاف   اپنے ہاں عدالت میں کیس بھی کر دیا۔

لیکن اب اردگان صاحب اپنی پالیسی میں تبدیلی لائے ہیں۔ انہوں نے سعودی عرب سے بھی تعلقات  بحال کیے ہیں، مصر سے بھی  اور متحدہ عرب عمارات سے بھی۔ اردگان صاحب کا ممکنہ طور پر خیال ہے کہ امیر عرب ممالک ان کے معاشی حالات کی سختی  کی کمی میں کام آ سکتے ہیں۔ ایک  تو ان سے اپنے ملک میں سرمایہ کاری کروائی جا سکی ہے اور دوسرا ان کے ہاں برآمدات سے بھی کمایا جا سکتا ہے۔ اسرائیل سے تعلقات کی بحالی بھی اسی سلسلے کی کڑی نظر آتی ہے۔ اوپر سے یورپ میں گیس کی کمی نے اردگان صاحب کے لیے ایک اور  معاشی موقع نکال دیا ہے۔ وہ اسرائیل سے ایک گیس  پائپ لائن بچھانے میں دلچسپی رکھتے ہیں جو نہ صرف ترکی کو گیس کی فراہمی کرے گی، بلکہ اس پائپ لائن کو  یورپ تک بھی پہنچایا جا سکے گا۔ یوں یورپ پر ترکی ایک اور بالادستی حاصل کرے گا۔

TEKMOR Monitor: Turkey Lobbying Israel to Push Cyprus on Approving Gas  Pipeline - BLOOMBERG

اسرائیل کو اس ڈیل سے کیا ملا؟

اس وقت اسلامی دنیا میں طاقت کے تین مراکز سمجھے جاتے ہیں۔ ایک سعودی عرب، دوسرا ایران اور تیسرا ترکی۔ سعودی عرب کو اسرائیل شیشے میں اتار چکا ہے۔  ایران کو اس نے اپنا دشمن قرار دیا ہے۔ اسے اس نے عالمی پابندیوں سے جکڑوا دیا ہے۔ تیسرا مرکز تھا ترکی۔ تو بھئی وہ تو اب حلیف ہوا ناں۔ اب اسے کس سے خطرہ ہے،کسی سے نہیں۔ پھر جن ممالک نے اسرائیل سے پاکستان کی طرح تعلقات قائم نہیں کیے تو اب ان پر دباؤ آئے گا۔  وہاں بھی اسرائیل کو بنا فلسطینی زمینیں واپس کیے اور دو ریاستی پالیسی پر عمل درآمد کیے قبول کرنے  کی بحثیں تیز ہونگی۔ پھر حماس جو  فلسطین میں  مسجد اقصیٰ کو گرانے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے، اس کی ترک حمایت میں بھی کمی آئے گی۔  گیس والا منصوبہ اگر منڈیر  چڑھتا ہے تو خود دیکھ لیں سب سے زیادہ بالادستی کس کو حاصل ہوگی۔ یہ تو وہ چیزیں ہیں جو مجھ سے طالبعلم  کو بھی نظر آ رہی ہیں۔ اس سے بڑھ کر بھی اسرائیل بہت کچھ حاصل کرتا نظر آتا ہے۔

حاصل کلام:

گو کہ سفارتی تعلقات کی بحالی سے ترکی اور اسرائیل دونوں نے اپنے اپنے مفادات حاصل کیے ہیں لیکن مزے کی بات ہے کہ اسرائیل نے اس کے لیے کچھ خاطر خواہ سمجھوتا نہیں کیا۔ 2007 میں اس نے غزہ  کا محاصرہ کیا تھا۔ ترکیہ اس پر نالاں تھا، وہ آج بھی باقی ہے۔ ترکیہ اسرائیل سے فلسطینیوں پر ستم ڈھانے سے منع کرتا ہے، آپ حالیہ اسرائیلی  فضائی حملوں کو دیکھ لیں۔ کیسی عجیب بات ہے کہ مشرق وسطیٰ میں اتحاد سعودی عرب، ترکیہ اور اسرائیل کا بنتا نظر آتا ہے۔ کس کے خلاف؟ ایران کے۔ کاش کے یہاں اسرائیل کی جگہ ایران ہوتا اور ایران کی جگہ اسرائیل۔  لیکن ۔۔۔!

متعلقہ عنوانات