تمہاری آرزو تم سے کہیں بڑھ کر حسیں نکلی
تمہاری آرزو تم سے کہیں بڑھ کر حسیں نکلی
کہ دنیا کی ہر اک شے سے یہی دل کے قریں نکلی
میں سمجھا یاد بھی ترک تعلق پر تو آئے گی
مگر جب دل ٹٹولا ہے وہیں یہ جاگزیں نکلی
ابھی کچھ اور بھی کھیلو مرے چاہت بھرے دل سے
ابھی بھی زخم کم کم ہیں ابھی حسرت نہیں نکلی
سر محفل کیا رسوا مجھے تیری محبت نے
جھکی جو نام پر تیرے وہ میری ہی جبیں نکلی
نگاہوں نے تجھے ڈھونڈا تجھے دل سے پکارا ہے
نظر آئی نہ جو صورت وہ صورت دل نشیں نکلی
ہے دو ہی دن کی عمر گل مگر زندہ دلی دیکھو
تبسم لب پہ رقصاں ہے فضا ہرگز نہیں نکلی
جہاں پر سرحدیں دیر و حرم کی ختم ہوتی ہیں
وہیں پر نور ایماں ہے وہیں راہ یقیں نکلی
ہماری زندگی دریا کی موج مضطرب سی ہے
کہیں ابھری کہیں مچلی کہیں ڈوبی کہیں نکلی
اٹھا کرتی ہیں موجوں کی طرح ہی حسرتیں دل میں
نئی کتنی ابھر آئیں جو اک حسرت کہیں نکلی
شب فرقت حبیبؔ اپنا نہ کوئی کام کا نکلا
نہ آنسو با اثر نکلے نہ آہ آتشیں نکلی