تجھے اپنی فضاؤں پر پشیماں کون دیکھے گا
تجھے اپنی فضاؤں پر پشیماں کون دیکھے گا
ترا غم سہ کے بھی تجھ کو پریشاں کون دیکھے گا
نہ آئیں وہ نظر اندر تو باہر کی طرف دیکھوں
تصور ہے تو پھر تصویر جاناں کون دیکھے گا
کسی کے نور کی جب دیدہ و دل میں تجلی ہے
تو پھر بزم جہاں کے اب چراغاں کون دیکھے گا
سنے گا کون اس شور جہاں میں دھڑکنیں دل کی
مرا بھیگا ہوا اشکوں سے داماں کون دیکھے گا
جہاں صبح وطن جاتی ہے رنگ و نور برساتی
وہاں بے کیف سی شام غریباں کون دیکھے گا
ترے در پر جمی ہے ہر پریشاں حال کی نظریں
نہ تو دیکھے تو پھر حال پریشاں کون دیکھے گا
جہاں نے صرف یہ دیکھا کہ ساحل پر سلامت ہوں
اٹھا ہے جو مرے سینے میں طوفاں کون دیکھے گا
حبیبؔ آنکھوں کو اپنی بند کر کے ہی چلیں ورنہ
سر بازار بکتا خون انساں کون دیکھے گا