طولِ شبِ فراق

کسی شکست خوردہ جواری کی طرح گردن جھکائے آہستہّ ہستہ سیڑھیاں طے کرتا ہوا وہ اپنے کمرے کی جانب جا رہا تھا۔اُس وقت وہ معمول سے زیادہ پریشان اور غمگین نظر آرہا تھا۔اُس کے خشک اور منتشر بالوں نے اُس کا حلیہ مزید بگاڑ رکھا تھا۔ایسا جان پڑتا تھا جیسے وہ اپنی زندگی کا تمام اثاثہ لُٹا چکا ہو یا کسی دُور دراز واقع مرگھٹ سے اپنی کسی عزیز ترین ہستی کو نذر آتش کرنے کے بعد لوٹ رہا ہو۔اُسے اس طرح مغموم اور اُداس دیکھ کر مَیں کلیجہ مسوس کر رہ گیا۔چونکہ مَیں کافی دیر سے اُس کا انتظار کر رہاتھا اس لیے اُسے دیکھ کر اُٹھ کھڑا ہوا اور لمبے لمبے ڈگ بھرتا اُس کی جانب چل پڑا۔جب مَیں اُس کے قریب پہنچا تو پیچھے سے آواز دی۔
’’ہاتو یاما!‘‘
لیکن ہاتو یاما پر میری آواز کا کوئی اثر نہ ہوا اور وہ پہلے کی طرح ہی آہستہ آہستہ لنگڑاتا ہوااپنے کمرے کی طرف بڑھتا رہا۔اس پر مَیں دوبارہ چیخ اُٹھا۔
’’ہاتو یاما!‘‘
اِ س بار اُس نے چونک کر پیچھے کی جانب دیکھا اور مجھے دیکھتے ہی اُس کے پژمردہ اور غمگین چہرے پر خود بخود ہی پھیکی سی مسکراہٹ کی لہر دوڑ گئی اور بولا۔
’’ہیلو!‘‘ کب آئے؟‘‘
’’مَیں تو تین گھنٹے سے ویٹنگ ہال میں بیٹھا تمہارا انتظار کر رہا ہوں۔‘‘
’’اوہ! معاف کرنا بھئی! مَیں اپنا وعدہ پورا نہ کر سکا۔دراصل مَیں بھول ہی گیا تھا کہ مَیں نے تمہیں کافی ہاؤس میں ملنے کا وعدہ کیا ہوا ہے۔‘‘ پھر وہ مجھے بازو سے گھسیٹتے ہوئے کہنے لگاچھا! چلو اندر کمرے میں چل کر بیٹھیں۔‘‘اُس نے یہ چند جملے اپنے مخصوص جاپانی لہجے والی انگریزی میں ادا کئے۔اور پھر اپنی پتلون کی جیب میں سے چابی نکال کر اپنے کمرے کا دروازہ کھولنے لگا اور مَیں اُس کے پریشان چہرے کا جائزہ لینے میں محو ہوگیا۔ اس میں شک نہیں کہ جب سے اُس کی حسین و جواں بیوی ہیتی اور بچہ اوریا نا گاساکی میں ایٹم بم کی نذر ہوئے تھے تب سے اُس کی دنیا ہی بدل گئی تھی۔وہ اکثر کھویا کھویا سا رہتا اور شراب اُس نے کثرت سے پینی شروع کر دی تھی اور وہ گھنٹوں غم والم کے بحرِ عمیق میں غرقاب رہتا۔لیکن آج تو وہ معمول سے زیادہ پریشان اور غمگین دکھائی دے رہاتھا۔اندر کمرے میں جاکر اُس نے اپنے آپ کو پلنگ پر گرا دیا اور کئی لمحے تک بے حس و حرکت آنکھیں بند کئے لیٹا رہا اور مَیں اس عرصہ میں اُس کے چہرے کے تاثرات سے اُس کی اُداسی اور پریشانی کو سمجھنے کی کوشش کرتا رہا۔جب میری سمجھ میں کچھ نہ آیا تو مَیں اُٹھ کر اُس کے پاس ہی پلنگ پر جا کر بیٹھ گیا اور اُس کے منتشر بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے پوچھنے لگا۔
’’کیا بات ہے ہاتویاما؟‘‘
ہاتویاما نے میری بات کا کوئی جواب نہ دیا بلکہ وہ اُسی طرح دیوار کی طرف پیٹھ کئے بے حس و حرکت لیٹا رہا۔آخر اُس کی مسلسل خاموشی سے اوب کر مَیں نے اُس کا چہرہ اپنی طرف پھیرا تو دنگ رہ گیا۔اُس کی آنکھوں سے آنسو دجلہ و فرات کی مانند بہہ رہے تھے۔مَیں نے اُس کی پُرنم آنکھوں اور چہرے کو صاف کرنے کے بعد ہمدردانہ لہجے میں پوچھا۔
’’ہاتو یاما! تم اِتنے اُداس کیوں ہو؟‘‘
اُس نے میری بات کا کوئی جواب نہ دیا۔مَیں اُس کی غیر معمولی اُداسی سے دل ہی دل میں حیران و پریشان ہو رہا تھا۔اس میں شک نہیں کہ وہ کئی مرتبہ پہلے بھی کافی ہاؤس میں بیٹھے بیٹھے اُداس ہو جاتا تھا اور اپنی بیوی اور بچے کی یاد سے بیقرار ہوکر کسی انجانی دنیا میں کھو جاتا تھامگر آج تو خلافِ معمول عام دنوں سے زیادہ اُداس اور نراش نظر آرہا تھا۔مَیں ابھی اپنا سوال دہرا نا ہی چاہتا تھا کہ آہستہ آہستہ کھڑے ہو کر اُس نے الماری سے وہسکی کی بوتل نکالی اور دو گلاسوں میں ڈال کر ایک میری جانب بڑھا دیا اور دوسر ا گلاس اُٹھا کر دھیرے دھیرے چسکیاں لینے لگا۔
مَیں تو یوں بھی کم پینے کا عادی ہوں لیکن آج اُس کی پریشانی نے مجھے اتنا فکر مند بنا دیا تھا کہ اُس کا ساتھ دینے کو جی نہیں چاہ رہاتھا مگرجب اُس نے دو گلاسوں میں وہسکی ڈال کر ایک گلاس میری طرف بڑھایا تو نہ چاہتے ہوئے بھی چُپ چاپ وہ گلاس اُس کے ہاتھوں سے تھام لیا اور اُس کا ساتھ دینے کے لیے دھیرے دھیرے چسکیاں بھرتے ہوئے تخیلات کی پرواز میں اُس اولین ملاقات کے منظر میں کھوگیا جب مَیں پہلی بار اُس سے ملا تھا۔
ہاتو یاما سے میرے پہلی ملاقات فائن آرٹس گیلری میں ہوئی تھی جہاں مَیں عظیم روسی فنکار رورِک کے قابل ستائش شاہکاروں کی نمائش دیکھنے میں منہمک تھا۔ جب مَیں دیوکا رانی کے پورٹریٹ کے پاس پہنچا تو اُس میں مجھے زندگی رقص کرتی ہوئی محسوس ہوئی اور مَیں کئی لمحے مجسمۂ حیرت بنا اُس منہ بولتی تصویر کے سامنے کھڑا رہا۔تبھی اچانک کسی نے میرے شانے پر ہاتھ رکھ کر میرا نام پکارا اور مَیں چونک سا پڑا۔پیچھے مُڑ کر دیکھا تو میرا دیرینہ آرٹسٹ دوست راجن متل ایک جاپانی کے ساتھ کھڑا تھا ۔ جب مَیں اُن کی طرف مُڑا تو راجن نے میرا تعارف کراتے ہوئے کہا۔
’’یہ ہیں میرے عزیز ترین بچپن کے ساتھی راکیش جنہیں مَیں راکی کہہ کر پکارتا ہوں۔یہ ماڈرن آرٹ کے دلدادہ ہیں اور ان کی کئی تخلیقات عوام سے خراجِ تحسین حاصل کر چکی ہیں۔‘‘ اِس کے بعد اُس نے اجنبی جاپانی کا مجھ سے تعارف کرانا شروع کیا۔
’’ راکی! یہ جاپان کے مشہور مجسمہ ساز ہاتو یاما ہیں ۔شاید تم نے آج کل ان کے بارے میں اخباروں میں پڑھا ہوگا۔ یہ یہاں بھارت سرکار کی دعوت پر گاندھی جی کا مجسمہ بنانے کے لیے تشریف لائے ہیں۔‘‘
راجن کے تعارف کرانے پر مجھے یک لخت یادآگیاکہ ابھی پرسوں ہی مَیں نے اخباروں میں اُس کے فوٹو کے ساتھ اُس کی آمد کی خبر بھی پڑھی تھی،مَیں نے فوراً ہی اپنا ہاتھامصافحہ کے لیے آگے بڑھاتے ہوئے کہا۔
’’مجھے آپ سے مل کر انتہائی خوشی ہوئی۔‘‘
’’اور مجھے بھی۔‘‘ اُس نے رسماً انگریزی میں جواب دیا۔
اس کے بعد ہم گیلری میں تصویریں دیکھنے میں منہمک ہوگئے۔پھر وہاں سے فارغ ہونے کے بعد ہم تینوں’’گے لارڈ‘‘ چلے گئے جہاں ہم نے خوب پیٹ بھر کر کھانا کھایا اور پھر جب ہم وہاں سے اپنی اپنی قیام گاہوں کی طرف روانہ ہونے لگے تو مجھے ہاتو یاما کے بارے میں کافی واقفیت حاصل ہو چکی تھی۔
سگریٹ کا ایک طویل کش کھینچ کر اُس نے بتایا تھا کہ دوسری جنگِ عظیم کے آغاز میں وہ نیو یارک میں تھا اور اُس کی رفیقۂ حیات ناگا ساکی میں۔جب ہٹلر نے یورپ کے کئی ممالک کو تاخت و تارج کردیا تو اُس کی بیوی جنگ کے بھڑکتے ہوئے شعلوں سے گھبرا گئی۔اور اُسے جلد واپس آنے کے لیے لکھنے لگی۔ اُن دنوں ہوائی اور سمندری دونوں ہی راستے خطرناک تھے پھر بھی وہ اپنی جان پر کھیل کر نیویارک سے ناگا ساکی پہنچ گیاکیونکہ اُسے اپنی بیوی سے انتہائی پیار تھا۔علاوہ ازیں وہ اپنے اکلوتے ننھے بچے کو دیکھنے کے لیے بھی بے تاب تھا جس کی پیدائش اُس کے نیویارک پہنچنے کے چند ماہ بعد ہوئی تھی۔
ناگاساکی پہنچ کر وہ خوشی خوشی اپنی بیوی اور بچے کے ساتھ زندگی گزارنے لگا۔۔۔لیکن پھر ایک دن اچانک ایٹم بم کے مہلک اور ہولناک دھماکے نے اُس کی دنیا اُجاڑ کر رکھ دی۔اُس کی بیوی اور بچہ لقمۂ اجل ہوگئے۔وہ اُس قیامت خیز حادثے سے بچ تو گیا مگر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ایک ٹانگ گنوا بیٹھا۔جنگ کے خاتمے کے بعد وہ سکون و چین کی تلاش میں تمام روئے زمین کا چکر لگانے لگا لیکن وہ اپنی عزیز بیوی اور اور لختِ جگر اوریا کو نہ بھلا سکا۔۔۔۔۔۔۔اور اب وہ بھارت سرکار کی دعوت پر گاندھی جی کا مجسمہ بنانے کے لیے یہا ں دہلی آیا ہوا تھا۔
آج سے پیشتر ایک بار کافی ہاؤس میں بھی جب وہ سگریٹ کے طویل کش کھینچ کرمرغولے بناتا کسی گہری سوچ میں مستغرق تھا تو مَیں نے اُس سے کہا تھا۔
’’ہاتویاما!اگر کہو تو ایک سوال پوچھوں؟‘‘
’’ہاں ہاں بڑے شوق سے۔‘‘
مَیں سوچ میں پڑگیا کہ بات کیسے اور کہاں سے شروع کروں؟ آخر چند ثانیے ایسے ہی تذبذب کے عالم میں رہنے کے بعد مَیں نے سوال کیا۔
’’کیا تم بتا سکتے ہو کہ تمہاری بیوی اور بچے کی موت کیسے ہوئی؟۔‘
وہ کچھ اُ داس سا ہو گیا اور اُس کا اُداس چہرہ دیکھ کرمَیں خود ہی پچھتانے لگا کہ مَیں نے اُس سے ایسا سوال کیا ہی کیوں؟ یاتو ہاما کچھ دیر چُپ چاپ تصویرِ غم بنا کسی گہری سوچ میں ڈوبا رہا پھر اُس نے اپنی جیب سے دوسرا سگریٹ نکالا اور اُسے سلگا کر کافی ہاؤس کی چھت پر ٹکٹکی جمائے بولا۔
’’شاید تم جانتے ہی ہوگے کہ جاپان کو شکست دینے کے لیے اتحادیوں نے ایٹم بم کا سہارا لیا تھا اور اسی ایٹم بم نے ہیرو شیما اور ناگا ساکی کو تباہ و برباد کر دیا تھا۔ناگاساکی پر بم پڑنے سے چند گھنٹے پیشتر میری بیوی نے مجھ سے کہا تھاکہ جنگ کے خاتمے کے بعد ہم ساری دنیا کا چکر لگائیں گے ۔آہ اُس وقت کسے معلوم تھا کہ کل صبح ہونے سے پیشتر ہی موت کے ظالم ہاتھ اُسے اپنے شکنجے میں جکڑ لیں گے ۔رات ہم اطمینان سے سوئے ۔اچانک مجھے ایک زبردست دھماکا سنائی دیا اور اس سے پیشتر کہ مَیں آنکھ کھول کر حالات کا جائزہ لیتا، یک لخت مجھے اپنے اُوپر پہاڑ ایسا وزن گرنے کا احساس ہوا اور درد و کرب سے میری چیخ نکل گئی۔ لیکن اس کے بعد مجھے قطعی ہوش نہیں رہا۔ اس واقعہ سے تیسرے دن جب مجھے ہوش آیا تو مَیں شدتِ درد سے بُری طرح تڑپ ارہاتھا اور میرے جسم پر پٹیاں بندھی ہوئی تھیں۔مَیں نے آنکھ کھولنے کے بعد اِدھر اُدھر دیکھ کر حالات کو سمجھنے کی کوشش کی لیکن بے سود۔میرے ارد گرد ڈاکٹروں کے علاوہ متعدد نرسیں بھی اِدھر اُدھر گھوم رہی تھیں۔مَیں نے اُن سے متعدد سوال کئے مگر انہوں نے میری کسی بات کا جواب نہیں دیا۔اُن سب کے چہرے اُترے ہوئے تھے اور وہ اس دلدوزاور ہولناک حادثے سے از حد رنجیدہ اور اُداس نظر آتے تھے۔کئی دنوں کے بعد انہوں نے مجھے بتایا کہ ناگا ساکی پر اتحادوں نے ایٹم بم گرایا تھا جس سے سارا شہر کھنڈرات میں تبدیل ہوگیا تھا۔ہزاروں لوگ لقمۂ اجل ہوگئے تھے۔عورتیں بیوہ ہوگئی تھیں،بچے یتیم ہوگئے تھے اور ماؤں کی گودیں سونی ہو گئی تھیں اور جو زندہ بچے تھے اُن میں زندگی کا کوئی لطف باقی نہ رہا تھا کیونکہ اُن میں سے کسی کی ٹانگ نہیں تھی تو کسی کا ہاتھ نہیں تھا۔کوئی اندھا ہوگیا تھا تو کسی کا چہرہ انتہائی ڈراؤنا۔ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ میری بیوی اور بچہ بھی شاید دوسرے ہزارہا انسانوں کے ساتھ موت کا شکار ہوگئے تھے۔
وہ بات کرتے کرتے ایکایکی خاموش ہوگیا۔اُس کی آواز بھرائی ہوئی تھی اور اُس کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئی تھیں۔کئی لمحے وہ اسی طرح چُپ چاپ بیٹھا رہا۔ ایسا جان پڑتا تھا جیسے وہ اپنی بیوی اور بچے کی یاد سے پھر غمگین ہوگیا ہے۔اُس کے ہاتھ کا ادھ جلا سگریٹ قریب قریب ختم ہوگیا تھا۔پھر یکلخت وہ چونک پڑا اور اُس نے اپنی ادھوری داستان کا بقیہ حصہ سنانا شروع کیا۔
’’۔۔۔۔۔۔ ہیتی اور اوریا کی موت نے میرے لئے قیامت برپا کردی
لیکن پھر بھی مجھے اُن کی موت کا یقین نہیں آتا تھا اس لئے روبصحت ہوتے ہی مَیں نے اپنی زخمی ٹانگ کی پروا نہ کرتے ہوئے بھی اُن کی تلاش شروع کردی۔ ناگاساکی کے کھنڈرات اور ہسپتالوں کا چپہ چپہ مَیں نے ایک موہوم امید کے بھروسے چھان مارا اور آخر جب امید بھی دم توڑ گئی اور مجھے اُن کی موت کا یقین ہوگیا تو میں پاگل سا ہوگیا۔دن بھر دیوانوں کی طرح ناگا ساکی کے کھنڈرات میں آوارہ گردی کرتا رہتا ۔ آخر نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ ناگاساکی مجھے کاٹ کھانے کو دوڑنے لگا ۔ آخر تنگ آکر مَیں نے ناگاساکی کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے الوداع کہہ دیا اور بے مقصد اِدھر اُدھر گھومنے لگا۔کبھی امریکہ چلا جاتا تو کبھی فرانس۔مگر اس کے باوجود بھی مجھے سکون نصیب نہیں ہوا۔مَیں جہاں بھی گیا اُن کی یاد میرا تعاقب کرتی رہی۔اُن کی یاد مَیں ایک ثانیئے کے لیے بھی نہ بھلا سکا۔‘‘
اتنا کہہ کر وہ خاموش ہوگیا اور اُس نے جیب سے ایک اور سیگریٹ نکال کر سلگایا اور اس کے کش لگاتے ہوئے نہ جانے کون سی دنیا میں کھو گیا۔مَیں بھی اُس کی اذیت ناک اور دلدوز داستانِ حیات سے غمگین ہوگیا تھا۔۔۔۔۔۔اتنا غمگین کہ اُس کے بعد مَیں نے اُس سے کوئی بات نہ کی اور چُپ چاپ بیٹھا اس کے اندرونی درد و کرب کے احساس سے دُکھ کے بحرِ عمیق میں غرقاب رہا۔اُس وقت میرا جی چاہ رہا تھا کہ اگر میرا بس چلے تو ابھی اُسے اقوام متحدہ کے نمائندوں کے سامنے لے جا کر کھڑا کردوں اور اُن سے چیخ چیخ کر کہوں کہ۔۔۔۔۔۔
’’اے امنِ عالم کے علم بردارو! کیا تُم دنیا کی بڑی بڑی طاقتو ں کو مہلک ایٹمی ہتھیار بنانے سے نہیں روکوگے؟دیکھو ہیرو شیما اور ناگا ساکی پر گرائے گئے
بموں کا نتیجہ۔اس کی بیوی اور بچہ اُس قیامت خیز حادثہ میں ہلاک ہوگئے۔اور یہ بالکل تنہا ہوکر آج ایک زندہ لاش بن چکا ہے۔لیکن یہ صرف اس ایک واحد انسان کی داستانِ الم نہیں بلکہ یہ اُن لاکھوں انسانو ں کی دکھ بھری کہانی ہے جنہیں ایٹم بم کا شکار ہونا پڑا ہے۔جنہیں موت، بیماری ،جسانی معذوریت اور اندرونی کرب سے دو چار کیا گیا ہے۔کیا تم ان کی حفاظت نہیں کروگے؟کیا تم لاکھوں انسانوں کو اس غیر قدرتی موت اور بیماریوں سے نہیں بچاؤگے؟کیا تم ان گنت بچوں کے یتیم ہونے کے ذمہ دار نہیں ہو؟ بولو! جواب دو؟ کیا ایٹمی ہتھیاروں کی دوڑ کبھی ختم نہیں ہوگی؟ کیا انسان کو آرام اور سکھ کی زندگی گزارنے کا موقع نہیں ملے گا؟ بولو ، جواب دو؟‘‘
کا فی دیر تک ہم اسی طرح ساکت و سامت بیٹھے رہے ۔ہم دونوں میں سے کسی نے بھی کوئی بات چیت نہیں کی۔وہ تو شاید اپنی پیاری بیوی اور بچے کی ابدی جُدائی سے دُکھی ہوکر اُن کے ساتھ گزارے ہوئے فرحت آمیز اور پُر مسرت دنوں کے تصور میں کھو گیا تھا اور مَیں اُس کی کہانی کے المیہ انجام سے ازحد غمگین ہوگیا تھا ۔ اُس دن ہمیں پتہ ہی نہ لگا کہ کب ہم کافی ہاؤس سے اُٹھے اور کب ایک دوسرے سے جُدا ہوئے۔
مَیں ابھی تک وہسکی کی چسکیاں بھرتے ہوئے ہاتو یاما کے ماضی کے بھیانک حادثے کے تصورات میں کھویا ہوا تھا۔ اور وہ گلاس پر گلاس بھر کر اپنے حلق میں انڈیلے جا رہا تھا حتاکہ پوری بوتل ختم ہوگئی اور اُس نے الماری سے دوسری بوتل نکال کر پینی شروع کردی ۔ اب شاید وہ ہوش میں نہیں تھا۔اچانک میری نظر گھڑی پر پڑی ،بارہ بج کر دس منٹ ہوچکے تھے۔مَیں فوراً گھر جانے کے لیے اُٹھ کھڑا ہوا۔مجھے اُٹھتے دیکھ کر اُس نے مجھے بازو سے پکڑ کر بٹھاتے ہوئے کہا۔
’’ارے یار! بیٹھو نا! تم تو ابھی سے اُٹھنے لگے۔‘‘
’’ نہیں۔ معاف کرنا ہاتویاما مجھے دیر ہورہی ہے۔گھر میں میری بیوی میرا انتظار کر رہی ہوگی۔‘‘
بیوی کے انتظار کی بات مَیں نے کہہ تو دی لیکن پھر فوراً ہی مجھے احساس ہوا کہ مَیں نے یہ کہہ کر اچھا نہیں کیا کیونکہ وہ اس بات سے زیادہ غمگین ہوکر بہکی بہکی باتیں کرنے لگا۔
’’یار!معاف کرنا۔ تمہاری بیوی تمہارے انتظار میں پریشان ہو رہی ہوگی۔‘‘
کچھ دیر بعد مَیں اُس سے ہاتھ ملا کر جلدی جلدی بڑے بڑے ڈگ بھرتا ہوا اپنے گھر کی طرف چل پڑا مگر سارا راستہ مَیں نے ہاتو یاما کی اُداسی اور پریشانی پر غور کرتے ہوئے کاٹا اور رات سوتے وقت بھی اُس کا اُترا اور پژمردہ چہرہ میری آنکھوں کے سامنے گھومتا رہا۔
رات تاخیر سے سونے کے کارن صبح مَیں جلدی نہ اُٹھ سکا۔جب آنکھ کھلی تو گھڑی ساڑھے آٹھ بجا رہی تھی میرے اُٹھتے ہی نوکر بیڈ ٹی لے کر آ وارد ہوا۔چائے پیتے ہوئے مَیں نے سوچا کہ جلدی سے تیار ہوکر ہاتو یاما کی خیرو عافیت دریافت کرنے چلوں کیونکہ رات وہ شدتِ غم سے وہسکی کے گلاس پرگلاس چڑھائے جا رہا تھا۔اتنے میں نوکر نے ریڈیو کا سوئچ آن کردیا تاکہ مَیں اپنی عادت بموجب خبریں سُن سکوں مگر پہلی خبر سنتے ہی چائے کا پیالہ میرے ہاتھ سے چھوٹ گیا۔نیوز ریڈر کہہ رہا تھا۔
’’ابھی ابھی اطلاع ملی ہے کہ نئی دہلی کے ایک ہوٹل میں جاپان کے مشہور مجسمہ ساز ہاتویاما نے خود کشی کر لی ہے۔مرحوم ابھی چند ہفتے ہوئے بھارت سرکار کی دعوت پر گاندھی جی کا مجسمہ بنانے کے لیے تشریف لائے تھے۔خود کشی کرنے سے پیشتر وہ ایک خط چھوڑ گئے ہیں جس میں انہوں نے لکھا ہے کہ وہ اپنی عزیز رفیقۂ حیات ہیتی اور ننھے بچے اوریا کی ابدی فرقت گوارا نہیں کر سکتے جو ناگاساکی میں اتحادیوں کے ایٹم بم کا نشانہ بن گئے تھے۔اُن کی یاد ہمیشہ اُن کا تعاقب کرتی رہتی ہے۔اُن کے بغیر وہ ایک زندہ لاش ہیں اور اُن کی جُدائی میں انہیں ایک پل بھی سکون نہیں ملتا اس لئے وہ اس اذیت ناک زندگی سے تنگ آکر خود کشی کر رہے ہیں تاکہ۔۔۔۔۔۔
مَیں اس سے زیادہ کچھ نہ سُن سکا اور اسی طرح لباس شبانہ پہنے ہی ہوٹل پہنچنے کے لیے باہر کی طرف دوڑ پڑا۔