تشنگی کا سفر
آج کی شام کتنی خوش گوار ہے!!
سارے دن کا تھکا ماندہ آفتاب مغرب کی آغوش میں جھک گیا ہے۔ اُس کی سنہری کرنین روئے کائنات پر رقصاں ہیں اور سبزہ وگل کو چوم رہی ہیں۔ فضا کیف برسارہی ہے، ہواؤں کے نرم نرم خوش گوار جھونکے فرحت بخش رہے ہیں۔ میں یونیورسٹی کے خوبصورت لان میں کھلے ہوئے رنگ رنگ کے پھولوں کی رعنائیوں اور بھینی بھینی خوشبوؤں سے لطف اندوز ہورہا ہوں۔ ہر طرف طرح طرح کے پھولوں کی رنگینیاں اور رعنائیاں بکھری ہوئی ہیں۔ ماحول بے حد رُومان انگیز اور کیف بداماں ہے۔ فضا میں سرور وانبساط کے نغمے گونج رہے ہیں۔
میں تنہا یونیورسٹی کے اِس خوبصورت سے لان میں بیٹھا سگریٹ کے دھوئیں کے مرغولے سے کھیل رہا ہوں۔ شاید کسی کہانی کے تانے بانے بُننا چاہتا ہوں۔ لیکن کوئی بات میرے ذہن کی گرفت میں نہیں آرہی ہے۔ خیالات وافکار کی ندی تیز بہنے لگی ہے اور میری نگاہوں میں سُدھا کا سراپا اُبھرآیا—— سا ئیکلوجی کی نئی لکچرر سُدھا —— حُسن و جوانی سے سرشار سُدھا جس کے حسن وجمال کی رعنائی سے یونیورسٹی میں بہار آگئی ہے اورفضا گنگنانے لگی ہے۔ پھر میں خیالات کی خاموش بہتی ہوئی ندی میں نہ چاہتے ہوئے بھی مخالف سمت میں تیرنے لگا ہوں۔
اِدھر کچھ دنوں سے نہ جانے مجھے کیا ہوگیا ہے۔ جب کبھی میں تصور کی کائنات سجانے لگتا ہوں اور کوئی کہانی لکھنا چاہتا ہوں، ذہن کے پردے پر ایک تصویر سی جھلملانے لگتی ہے اور سُدھا حسین اور رنگین فضا بن کر میرے دل ودماغ پر چھا جاتی ہے اور مجھ پر عجیب سی کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے سُدھا کے وجود نے مجھ سے کہانیاں لکھنے کی ساری صلاحیتیں چھین لی ہوں۔ سدھا کے آنے سے پہلے میری تنہائیاں کتنی پُر سکون تھیں! میں جب چاہتا صفحۂ قرطاس پر الفاظ کے جال بچھا دیتا اور کہانی مکمل ہوجاتی۔ لیکن اب تو کوئی کہانی ہی جنم نہیں لیتی! شاید میں خود کہانی بنتا جارہا ہوں۔ جب بھی کاغذ قلم لے کر کہانی لکھنے بیٹھتا ہوں سُدھا میرے قریب آجاتی ہے، بہت قریب اور کاغذ قلم چھین کر ایک طرف رکھ دیتی ہے اور اُس کی جھیل سی گہری خُمار آلود آنکھیں کہنے لگتی ہیں: ’آپ کو صرف افسانے سے دلچسپی ہے! آپ کو میرے وجود میں کوئی کشِش نظر نہیں آتی !‘ اور وہ اپنی مرمریں بانہیں میرے گردن میں ڈال دیتی ہے۔ میرے انگ انگ میں کیف و سرور چھا جاتا ہے۔میں دوسری کائنات میں پہنچ جاتا ہوں، ایسی دنیا میں جہاں کوئی نہیں ہوتا، میں ہوتا ہوں اور سُدھا ہوتی ہے، سُدھا کا پیار ہوتا ہے، اُس کے حُسن وجمال کی چاندنی ہوتی ہے اور اس کی پیاری پیاری باتیں ہوتیں، شہد میں ڈوبی ہوئی باتیں!!
سُدھا کا تصور اُبھرتے ہی مجھے شکسپیئر کا جملہ یادآجاتا ہے ’عورت خوشبو، نغمہ، اور روشنی کا مجموعہ ہے ‘ سُدھا میں یہ سارے اوصاف موجود ہیں۔ اُس کا وجود یونیورسٹی کے سمن زار میں ایک ایسا خوشنما پھول ہے جس کی خوشبو اور رعنائی سے ساری فضا پُر بہار اور نکہت بکنار رہ سکتی ہے۔ قدرت نے ساری کائنات کا حُسن اس کی شخصیت میں سمو دیا ہے۔نئے نئے رنگوں اورنِت نئی وضع کے کپڑوں سے اُس کے حسن وجمال میں چار چاند لگ جاتا ہے۔ یونیورسٹی کی ساری رعنائیاں اور شادابیاں اِس کے وجود کی مرہون منت ہیں۔ یونیورسٹی کے در ودیوار اُس کے ملکوتی حسن وجمال کی شان میں قصیدے پڑھتے ہیں۔ لائبریری،کیفے، یونیورسٹی لان، ہر جگہ اُس کا ذکر ہوتا ہے۔ سبھوں کے دل میں اُس سے ملنے، اُس سے باتیں کرنے اور اسے چھونے کی حسرتیں چُٹکیاں لیتی رہتی ہیں۔
سُدھاکا حلقہ بہت مختصر ہے۔ وہ ہر کسی سے ملنا پسند نہیں کرتی۔ وہ صرف کلاس کرتی ہے اور چلی جاتی ہے۔ اپنے ڈیپارٹمنٹ میں کسی سے بات کرنا بھی اُسے گوارا نہیں۔کتنی مغرور اور خود دار ہے وہ! اُس کے جسم کی ساخت ہی ایسی دلکش اور جاذب نظر ہے کہ کوئی بھی اُس کی طرف متوجہ ہوئے بغیر نہیں رہتا۔ سب اس کی قربت حاصل کرنے کے مواقع تلاش کرتے رہتے ہیں۔ لیکن وہ کسی کو لفٹ نہیں دیتی۔ سبھی اس کی بے اعتنائیوں کے شاکی ہیں۔ وہ پروفیسر کمالؔ کو بھی منھ نہیں لگاتی جو لڑکیوں کو پھانسنے میں ایکسپرٹ اور مشہور زمانہ ہیں۔ اُن کا خیال ہے سُدھا موجِ سراب سے زیادہ حقیقت نہیں رکھتی۔ اُس کی قربت سے کسی کی پیاس نہیں بجھ سکتی۔ وہ خوبصورت ہے، اسمارٹ ہے، شاخِ گل کی طرح لچکتی چلتی ہے۔ اُس کی خمار آلود آنکھوں کا جادو ہر ایک کو سحر زدہ کرتا ہے۔ ملکوتی حُسن اور دلکش خطوط کا طلسم دیکھنے والوں کی نگاہیں خیرہ کر دیتا ہے، لیکن جو کوئی بھی اُس کے قریب جاتا ہے، مایوس لوٹ آتا ہے، وہ بالکل خُشک ہے، ڈرائی ہے۔ وہ صرف دیکھنے کی چیز ہے۔ شاید اِس کا سبب سُدھا کی نرگسیت ہے۔ وہ اپنے حُسن وجمال کے مقابلہ میں کسی کو کچھ نہیں سمجھتی۔ اُس کے پُر وقار حسن اور شخصیت سے سبھی مرعوب رہتے ہیں۔ کسی میں جرأت ہی نہیں کہ اُس کی قربت اور رفاقت حاصل کرے۔
سُدھا کبھی کبھی ہمارے شعبہ میں چلی آتی ہے، ادب اور نفسیات پر گفتگو کرنے کے لیے، غالبؔ کی غزلوں کی گتھیاں سلجھانے اور نفسیاتی مطالعہ کرنے کے لیے۔ وہ صدر شعبہ سے کافی دیر تک ادبیات پر بحث اور گفتگو کرتی ہے۔ اُس کا ادبی ذوق بہت سُتھرا ہے۔ وہ میرے افسانے بھی بہت ذوق وشوق سے پڑھتی ہے اور اُن کہانیوں پر بے لاگ تبصرہ اور تنقید بھی کرتی ہے۔ اُس نے بہت سلجھا ہوا تنقیدی شعور پایا ہے۔ وہ جب تک ادب پر گل افشانی کرتی ہے، میں اس کے دل آویز لہجے، جاذبِ نظر خد وخال اور آواز کے جادو میں کھویا رہتا ہوں اور میری نگاہیں اُس کے حُسن وجمال کو چومتی رہتی ہیں، میں اُس کے وجود کے نشہ میں ڈوبتا چلا جاتا ہوں اور تصور ہی میں اُسے اپنی بانہوں میں لے کر ایسی کائنات میں پہنچ جاتا ہوں جہاں کوئی نہیں ہوتا، میں ہوتا ہوں اور سُدھا ہوتی ہے۔ اُس کے حُسن وجمال کی چاندنی ہوتی ہے اور اس کی پیاری پیاری باتیں ہوتی ہیں، شہد میں ڈوبی ہوئی باتیں!!
سُدھا میرے اعصاب پر چھائی جاتی ہے۔ میں اُس کے تصور سے جتنی دُور جانا چاہتا ہوں وہ اتنے ہی قریب آجاتی ہے۔ آج پھر سُدھا میری تنہائی میں بہار کی خوشبو کی طرح چلی آئی ہے۔ اُس کے چہرے پر تازگی اور شگفتگی ہے، فصل گل کی طرح! اُس کے تراشیدہ یاقوتی ہونٹوں پر مونالِزا کے تبسم کا نور ہے اور اس کی مخمور آنکھوں میں عمر خیامؔ کی رُباعیاں مچل رہی ہیں۔ اُس کی آرائش وزیبائش میں ایک دلکشی ہے، ایک جاذبیت ہے۔ جدید طرز کے لباس میں حُسن وجوانی کی کرنیں پھوٹ رہی ہیں، مرمریں جسم کے تمام نقوش بکھر رہے ہیں اور وہ آئینہ کی طرح چمک رہی ہے۔ وہ میرے قریب، بہت قریب آکر بیٹھ جاتی ہے۔
’’آپ تو بس کہانیوں کے تانے بانے میں اُلجھے رہتے ہیں۔ کبھی اِن آنکھوں میں بھی جھانکا ہے جِن میں نہ جانے کتنی حسرتیں تڑپتی رہتی ہیں! کبھی آپ نے اِس معصوم دل کے بارے میں بھی سوچا جس میں آپ سے ملنے کی خواہش اور آپ سے باتیں کرنے کی تمنائیں چٹکیاں لیتی رہتی ہیں! کیا میں آپ کو اچھی نہیں لگتی؟ کیا میں آپ جیسے ادیب وشاعر سے سلجھی ہوئی گفتگو کا سلیقہ نہیں رکھتی۔ کیامیں ؟‘‘
’’نہیں نہیں!! ایسی بات نہیں ہے!!‘‘
اورمیں اُس کی لانبی لانبی نوک دار پلکیں چوم لیتا ہوں۔
خیالات کی خاموش بہتی ہوئی ندی کی سطح پر ایک سانپ سا رینگ جاتا ہے۔
اور میں سُدھا سے باتیں کرنے لگتا ہوں۔حُسن وعشق کی باتیں، چاندنی رات اورجوانی کی باتیں، شب رنگ زُلفوں اور نشیلی آنکھوں کی باتیں اور
وہ میرے قریب سمٹ آتی ہے اور اپنی بانہیں میری گردن میں ڈال دیتی ہے۔ اُس کی خمار آلود آنکھیں دعوتِ سرور دے رہی ہیں اور یاقوتی ہونٹ انگارے کی طرح دہک رہے ہیں۔ اُس کے جسم کے لمس سے میرے انگ انگ میں گدگدی سی پیدا ہورہی ہے۔ اُس کی تیز تیز سانسوں کی حِدّت سے میرا وجود پگھلنے لگا ہے۔ میرے اندر شعلے سے لپکنے لگے ہیں اور رگ وپے میں چیونٹیاں سی رینگنے لگی ہیں۔ میری ہتھیلیاں اُس کے دہکتے رُخسار اور مرمریں گردن پر پھسل جاتی ہیں اور اُنگلیاں اُس کے سیاہ ریشمیں بالوں کے آبشار میں نہانے لگتی ہیں۔ دفعتاً میں اپنے ہونٹ اُس کی صبیح پیشانی پر رکھ دیتا ہوں۔ وہ گھبراسی جاتی ہے اور مجھ سے الگ ہونا چاہتی ہے۔ لیکن میں اس کی کلائی تھام لیتا ہوں۔ اُس کے ہاتھوں کی چوڑیاں ٹوٹ کر میری اُنگلیوں میں چبھ جاتی ہیں اور میں چیخ اُٹھتا ہوں۔
میری انگلیوں کے درمیان دبا ہوا سگریٹ جل کر راکھ بن چکا ہے اور اِس میں چھپی ہوئی چنگاری سے میری انگلیاں جل گئی ہیں۔
اور مجھے محسوس ہورہا ہے جیسے خیالات کی بہتی ہوئی ندی کے مخالف سمت تیرتے تیرتے میں تھک گیا ہوں!!