تری محبت میں غم جو آئے تو اس سے بڑھ کر خوشی نہیں ہے
تری محبت میں غم جو آئے تو اس سے بڑھ کر خوشی نہیں ہے
وفا کی منزل کے خار میں بھی گلوں سے کم دل کشی نہیں ہے
نہ تجھ میں جرأت ہے رند کی سی نہ تجھ میں وسعت دل و نظر کی
عظیم شے ہے یہ رسم رندی یہ صرف بادہ کشی نہیں ہے
لباس نو میں ہوس نے آ کر مذاق حسن و نظر ہیں بدلے
وہ عشق میں ہے نہ سرفروشی وہ حسن میں دلبری نہیں ہے
تجھی سے گرمی تھی محفلوں کی تجھی سے تھی وہ چمن کی سیریں
نہیں وہ محفل میں لطف باقی گلوں کے لب پر ہنسی نہیں ہے
نہیں یہ ممکن کہ اس کے در سے تو خالی دامن ہی لوٹ جائے
طلب ہی تیری ہے خام اب تک نظر بھی در پر جمی نہیں ہے
خرد کی گو ہیں ہزار آنکھیں ہے دل کی صرف ایک آنکھ لیکن
جو دل کی بجھ جائے شمع الفت تو پھر کہیں روشنی نہیں ہے
غم آشنا تیرا دل نہیں ہے تو آئے اس میں گداز کیسے
جو ساز دل کا نہیں ہے ٹوٹا تو اس میں پھر نغمگی نہیں ہے
کرو گے کیا تم حبیبؔ آخر حیات طول و طویل لے کر
تبسم گل کے ایک لمحے میں کیا کوئی زندگی نہیں ہے