ترے بازوؤں کا سہارا تو لے لوں مگر ان میں بھی رچ گئی ہے تھکن
ترے بازوؤں کا سہارا تو لے لوں مگر ان میں بھی رچ گئی ہے تھکن
میں صحرا سے بچ کر چمن میں تو آؤں پہ صحرا سے کچھ کم نہیں یہ چمن
مری زیست کی راہ تاریک تھی چاند بن کر تم آئے تو روشن ہوئی
یہ راہ آج پھر تیرہ و تار ہے غالباً چاند کو لگ گیا ہے گہن
ہر اک سمت ناگن کی صورت لپکتی ہوئی تیرگی سے ہراساں نہ ہو
عجب کیا کہ لو دے اٹھے میرے لمس فروزاں سے تیرا سلگتا بدن
یہ اشکوں سے بھیگی ہوئی مسکراہٹ مروت کا اعجاز ہے ورنہ
غموں کی ہواؤں میں اڑتا ہوا دیکھ کر آ رہے ہیں کوئی پیرہن
فراق لب و زلف پر منحصر کم ہی پائی ہے اہل وفا کی تڑپ
تم آغوش کے تنگ حلقے میں ہو پھر بھی ہر لمحہ افزوں ہے دل کی جلن