تھیں نسیم و صبا تک گوارا نرم رفتار و سادہ ہوائیں

تھیں نسیم و صبا تک گوارا نرم رفتار و سادہ ہوائیں
بند کیجے دریچے سخن کے اب ہیں حد سے زیادہ ہوائیں


شمع خسخانہ بھی بجھتے بجھتے لاکھوں شعلوں کی خالق بنے گی
بے ضرورت اگر اوڑھ لیں گی آندھیوں کا لبادہ ہوائیں


یاد ہے باغ بے غنچہ و گل شاخ بے طائر و آشیانہ
غالباً پھر انہیں شورشوں کا کر رہی ہیں اعادہ ہوائیں


صبح دم بے سبب تو نہیں ہے وادئ گل پہ یہ رنگ پاشی
خارزاروں میں بھٹکی ہیں شاید رات بھر پا پیادہ ہوائیں


نور و ظلمت کی اس کشمکش میں ہے گرفتار ذوق تجسس
مرحلہ مرحلہ ماندہ شمعیں تیز رو جادہ جادہ ہوائیں