والدین اپنے بچوں کی پڑھائی میں کیا کردار ادا کرتے ہہں

شیخ معین الدین نے کامیاب طلباء کے والدین کی  کچھ خصوصیات بتائیں۔ طلباء کی کامیابی کا راز" والدین کی اس گہری دلچسپی میں ہے جو وہ اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت میں لیتے ہیں۔ یہ والدین اپنے بچوں کی چھوٹی عمر سے ہی ان میں پڑھنے لکھنے کا شوق اور ماحول میں دلچسپی پیدا کرتے ہیں۔ کہانیاں سنا کر اور آسان کتابیں ان کے ہاتھوں میں دے کر اس شوق کو بڑھاتے ہیں۔ والدین کو چاہیے کہ بچوں کے لیے آہستہ آہستہ بہتر معیار اور مشکل الفاظ کی کتابیں لائیں تاکہ بچہ ترقی کر تا رہے۔ پڑھائی کے وقت پڑھائی اور کھیل کے وقت کھیل کے اصول پر عمل کرنے کی عادت ڈالیں۔ 

 

عام طور پر مائیں اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت میں زیادہ دلچسپی لیتی ہیں۔ اگر دونوں والدین مل کر بچوں کی حوصلہ افزائی اور رہنمائی کریں تو نتیجہ بہتر ہو گا۔ والدین کو چاہیے کہ اپنے بچوں کے اساتذہ کے ساتھ مسلسل رابطہ رکھیں۔ تاکہ نہ صرف بچوں کی پڑھائی کے بارے میں رابطہ رکھیں بلکہ اساتذہ سے معلوم کریں کہ ان کا بچہ اپنے اساتذہ اور ہم جماعتوں کے ساتھ کیا سلوک کرتا ہے۔ والدین کو چاہیے کہ بچوں کو یاد دلاتے رہیں کہ کوشش اور محنت کرنا ان کا کام ہے۔ اگر بچے کوشش کریں گے تو خدا مدد ضرور کرے گا۔

 

البتہ میرے خیال میں بچے پر پوزیشن لینے کا دباؤ نہیں ڈالنا چاہیے۔ والدین کو چاہیے کہ بچوں کے سوالات کا جواب بچوں کی سمجھ کے مطابق ضرور دیں والدین کو چاہیے کہ بچوں کو لائبریری کی کتابیں پڑھنے کی تاکید کریں تاکہ انہیں کتابیں پڑھنے کا شوق ہو۔ لاہور میں چلڈرن کمپلیکس بچوں کی صلاحیتیں بڑھانے کا ایک بہترین ادارہ ہے۔ ایسے ادارے دوسرے شہروں میں بھی ہونےچائیں۔


 

والدین کو اپنے بچوں کا آپس میں اور دوسرے بچوں کے ساتھ ہرگز مقابلہ نہیں کرنا چاہیے ۔ ایسا کرنے سے بچے رہ جاتے ہیں اور ان کا حوصلہ کم ہو جاتا ہے۔ اس سے بہتر ہے کہ ہر بچے کی کار کردگی کا مقابلہ اس کی صلاحیت اور اس کے پڑھنے کی ریکارڈ سے کیا جاۓ ۔

 

والدین کو چاہیے کہ سکول کی پڑھائی کے علاوہ اپنے بچوں کو اچھے اخلاق کی تربیت دیں۔ نماز اور قرآن شریف پڑھنے کی تاکید کریں اور گھر کے کام کاج میں بھی ہاتھ بٹانے کی تربیت دیں۔

بچوں کی پڑھائی کے لیے ماں باپ کا کردار بہت اہم ہے۔ میں نے بہت سے طلباء کو امتحانوں سے پہلے پریشانی اور افسردگی کا شکار دیکھا ہے۔ بلکہ چند طلباء نے امتحانوں کی پریشانی میں خود کشی کرنے کی بھی کوشش کی۔ مثلا ایک فائنل ایئر میڈیکل کی طالبہ نے بجائے دہرانےکے امتحان کے  دوران اپنے آپ کو پھانسی دے دی۔ ان تمام مسائل کے پیش نظر اگر سوالوں کی تعداد بڑھا دی جاۓ اور جواب مختصر ہوں تو آپ کے خیال میں فائدہ ہوگا