تیشۂ کرب

تیشۂ کرب کندھوں پہ رکھے ہوئے
کوہ کن بے اماں پھر رہے ہیں یہاں
خواہشوں کے دیے
سب دھواں ہو گئے
وہ جو ماضی کے چمکیلے اوراق تھے
ان پہ لکھے ہوئے گیت گم ہو گئے


خواب کی بستیوں میں کوئی سر پھرا
اپنی پلکوں سے تقدیر گھڑتا رہا
اور تاریکیاں منہ چھپائے ہوئے
حال رفتہ پہ آنسو بہاتی رہیں


پستیوں کے سفر سے پلٹتے ہوئے
دھواں اڑاتے ہوئے رتھ پریشان ہیں
یوں بلندی سے خائف بھلا کیوں ہوئے
یہ مسافر سبھی
آکسیجن سے دم ان کا گھٹتا ہے کیوں