تیرے لطف و کرم سے جو دامن میں میرے آیا ہے

تیرے لطف و کرم سے جو دامن میں میرے آیا ہے
سینے سے وہ پھول لگایا خار وہ میں نے چوما ہے


پاؤں کی زنجیر سہی تیری نظروں میں رسم وفا
میرے دل سے پوچھو تو یہ میرے دل کا گہنا ہے


اپنے غمگیں دل کو ہم نے بہلایا گو جتنوں سے
لیکن مچل گیا یہ جب بھی نام تمہارا آیا ہے


میرے ٹوٹے دل میں گونجی آہ کسی دکھیارے کی
اب میں سمجھا گہرا کتنا دکھ سے دکھ کا ناطہ ہے


راکھ میں برسوں سے ہے چھپی اک تیرے پیار کی چنگاری
یاد کا جھونکا جب بھی آیا شعلہ سا اک لپکا ہے


نام ہے تیرا پیارا کتنا یاد ہے کتنی میٹھی سی
عمر ہے ان کو نا کافی اک عمر کا عرصہ تھوڑا ہے


صورت بھولی بھالی ہے اور دل بھی کسک سے خالی ہے
پیار میں اس کو کیا الجھائے آٹھ پہر کا رونا ہے


کس کی نظر میں مستی ہے یہ کس کے تبسم کا جادو
چھلکے ساگر بہکے رند اور مے خانہ بھی جھوما ہے


تنہائی کی راتوں میں بھی دل تو کبھی تنہا نہ رہا
یاد کسی کی آتی ہے اور درد کا پہرا رہتا ہے


بھول ہی جائیں اچھا ہے اور چوٹیں دل پر کھائی تھیں
دل تو لیکن پھر سے پرانے زخم کریدا کرتا ہے


بیتے دنوں کے سایوں سے کچھ چہرے ابھرے پیارے سے
یاد سے جس کے اب بھی حبیبؔ اس دل کا گلشن مہکا ہے