تصویریں
گرمیوں کی چلچلاتی دھوپ میں بھڑکتا سورج سروں پر سے ہوتا ہواآگے کی منازل طے کر رہا تھا۔سکول سے اپنے بچوں کو پک کرنے کے بعد میں مین بلیوارڈ گلبرگ کے ٹریفک جام میں پھنسی بیزاری سے ادھر ادھر نظریں دوڑا رہی تھی۔ ٹیلی فون کی نئی تاریں بچھانے کی غرض سے سڑک جگہ جگہ سے کھدی پڑی تھی۔ شدید گرمی میں ہارن بجاتے موٹرسائیکل اور گاڑیاں سست روی سے آگے کو سرک رہی تھیں، جن میں سوار بھوک کے مارے منہ بسورتے نڈھال بچے بے چارگی کی تصویر بنے بیٹھے تھے۔ شدید ٹریفک جام میں رکی ہوئی گاڑیوں کے انجن گرم ہوجانے کے باعث ڈرائیور حضرات بار بار بند کرکے ان کے شیشے نیچے گرا دیتے ۔مگر پھر بھی گرم لو کے تھپیڑوں نے اندر بیٹھے لوگوں کے چہرے کملادیئے تھے۔دوسروں کی طرح ٹریفک میں پھنسی میں بھی اندر سے بھنی بیٹھی تھی اوراپنے بچوں کی بھوک سے مردہ شکلیں دیکھ دیکھ کر پیچ و تاب کھائے جا رہی تھی ۔ گرمی کی شدت سے بے کیف زندگی کی بدمزگی چہروں سے چھپائے نہیں چھپتی تھی۔’’لائف از ٹف‘‘ میں نے ایک لمبی سانس بھرتے ہوئے لمحہ بھر کے لئے سوچا اور منہ بناتے ہوئے باہر کی طرف دیکھنے لگی ۔ حدِ نگاہ تک مہنگی ترین چمچماتی کاروں کی قطاریں لگی ہوئی تھیں۔
اچانک فضاؤں میں مجھے بلھے شاہ کی سریلی کافی گونجتی ہوئی سنائی دی۔ ’’بلھا کی جانڑاں میں کون ...؟‘‘بے اختیار میری نظریں اس آواز کے تعاقب میں بائیں طرف کوجا پڑیں، جہاں ایک ہرے ہرے گوبر سے بھرا گڈا رستہ بناتااتنی آسانی سے گزرنے لگا جیسے تمام رکاوٹوں کے باوجود پانی اپنا راستہ کھوج لیتا ہے ۔ گڈے کو کھینچنے والے دو مٹکتے بیلوں کی گردنوں سے بجتی گھنٹیوں کی آوازیں مجھے گاؤں کے کسی پنگھٹ پہ پانی بھرتی گوریوں کی چھن چھن کرتی پائلوں کی یاد دلانے لگیں۔گڈے پہ بیٹھا دیہاتی نوجوان بڑا سا پگڑ باندھے ارد گرد کے ماحول سے بالکل انجان اپنی ہی دنیا میں مست کافی گائے جارہا تھا ۔ پگڑ سے باہر جھانکتے اس کے لمبے لمبے بال شانوں پر جھول رہے تھے۔اس کی بے نیازی اور بے فکری سوانیزے پر آئے سورج، آگ برساتی گرمی اور لو کے تھپیڑوں کو شکست دے رہی تھی اور وہ مستی میں جھومتا ہوا خوبصورت کافی ’’بلھا کی جانڑاں میں کون ...؟‘‘ کی تانیں لگاتا میرے قریب سے گزر تا چلاگیا اورمیں اسے حیرت سے تکتی رہ گئی، جس کے مطمئن چہرے پرصاف لکھا ہوا تھا ’’زندگی کتنے مزے کی چیز ہے۔‘