طشت میں دھوپ کے ہر سمت زمیں ہے روشن
طشت میں دھوپ کے ہر سمت زمیں ہے روشن
جگمگاتا ہے مکاں اور مکیں ہے روشن
مرغ و ماہی کے بیاں سے نہ گریزاں رہنا
خوان پر گرچہ ابھی نان جویں ہے روشن
بوسہ دیتے ہوئے پتھر کو قدم تیز کرو
درمیاں سنگ کے اک شہر نگیں ہے روشن
بزم یاراں میں مچی دھوم نے ظلمت لکھی
نرم لہجے میں کوئی گوشہ نشیں ہے روشن
رات کے سر پہ ہے اجلا سا دوپٹہ جعفرؔ
ہو نہ ہو صحن محبت بھی کہیں ہے روشن