طریق گریہ اب اس سے بہتر نہیں ملے گا

طریق گریہ اب اس سے بہتر نہیں ملے گا
کہ ایک آنسو بھی کوئی باہر نہیں ملے گا


یہ شہر بھیدوں بھرا یہاں آدمی ملیں گے
مگر کسی کے بھی دوش پر سر نہیں ملے گا


ملے گا دفتر تو چھوٹ جائے گا گھر کہیں پر
جو گھر ملے گا کہیں تو دفتر نہیں ملے گا


زمیں پہ پکی عمارتیں اگ رہی ہیں ایسے
دوانے سر پھوڑنے کو پتھر نہیں ملے گا


چھلکتی آنکھوں ہری بھری مسکراہٹوں بن
ملیں گے دیوار و در یہاں گھر نہیں ملے گا


ملے گی دنیا ملو گے تم سب ملیں گے لیکن
ہمارا وہ گم شدہ مقدر نہیں ملے گا