تنہائیوں میں کیا کہوں کیا یاد آ گیا

تنہائیوں میں کیا کہوں کیا یاد آ گیا
افسانہ ایک بھولا ہوا یاد آ گیا


آساں سمجھ کے منزل جاناں پہ ہو لیے
وہ مشکلیں پڑی کہ خدا یاد آ گیا


سمجھا تھا میں کہ دل میں وہ اب محو ہو چکا
پہلے سے بھی مگر وہ سوا یاد آ گیا


دل نے فریب عشق میں کھائے ہیں بار بار
ہر بار دل کو عہد وفا یاد آ گیا


میرا سر غرور ندامت سے جھک گیا
اس کا کرم جو مجھ کو ذرا یاد آ گیا


گمنام تھا حبیبؔ اور گمنام چل دیا
اس کا مگر وہ صدق و صفا یاد آ گیا