تا حشر تو فراق کا احساں ہے اور ہم
تا حشر تو فراق کا احساں ہے اور ہم
کیا بعد حشر بھی شب ہجراں ہے اور ہم
دنیا تو جانتی ہے کہ زنداں ہے اور ہم
ہم جانتے ہیں خلوت جاناں ہے اور ہم
پیری ہے اور کوشش درماں ہے اور ہم
میداں ہے اور عمر گریزاں ہے اور ہم
کس کو بھلا نصیب ہوئی ایسی سلطنت
حد خیال تک یہ بیاباں ہے اور ہم
اک نام زندگی بھی ہے قید حیات کا
تا مرگ آب و گل کا یہ زنداں ہے اور ہم
محشر ہے انتظار سوال و جواب ہے
لیکن فسانۂ غم ہجراں ہے اور ہم
لے دے کے رہ گیا ہے یہی ایک مشغلہ
فکر جواب دفتر عصیاں ہے اور ہم