تا دیر ہم بہ دیدۂ تر دیکھتے رہے
تا دیر ہم بہ دیدۂ تر دیکھتے رہے
یادیں تھیں جس میں دفن وہ گھر دیکھتے رہے
کیا کیا نہ اعتبار دیا اک سراب نے
ہر چند تشنہ لب تھے مگر دیکھتے رہے
سورج چڑھا تو پھر بھی وہی لوگ زد میں تھے
شب بھر جو انتظار سحر دیکھتے رہے
صحن چمن کو اپنے لہو سے سنوار کر
دست ہوس میں ہم گل تر دیکھتے رہے
یہ دل ہی جانتا ہے کہ کس حوصلے کے ساتھ
ناقدریٔ متاع ہنر دیکھتے رہے
محسنؔ عروج کم نظراں سانحہ نہیں
یہ سانحہ ہے اہل نظر دیکھتے رہے