مسئلۂ افغانستان کو کیسے سمجھیں

 

افغان طالبان نے 21 جولائی سے 15 اگست کے درمیان جس برق رفتاری سے تقریباً پورے افغانستان پر قبضہ کیا ہے اس نے پوری دنیا کو ورطہِ حیرت میں ڈال رکھا ہے۔ جہاں بیشتر ممالک کے لوگ افغانستان میں تبدیل ہوتی صورتحال کے تناظر میں وہاں کے شہریوں کی سلامتی اور حقوق کے لیے پریشان ہیں وہیں کئی اسلامی ممالک کے عوام بشمول پاکستانیوں کے لیے کابل پر طالبان کے قبضے نے فتحِ مکہ کی یادیں تازہ کر دی ہیں اور وہ افغانستان میں اسلامی حکومت کے خواب دیکھنے لگے ہیں۔ ایک طرف طالبان کو سامراج کے آلہ کار کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے تو دوسری طرف ان کو چین اور روس کا دوست بتایا جا رہا ہے۔ ایسی صورتحال بنیادی سوال یہ ہے کہ اس مسئلے کو آخر کیسے سمجھا جائے؟

موجودہ سکستھ جنریشن وارفیئر میں خبر سے زیادہ اہم خبر کے ذرائع اور نقطہ نظر Perspective ہوتا ہے۔ افغانستان کے مسئلے کو تب تک نہیں سمجھا جا سکتا جب تک آپ اپنے نقطہ نظر سے آگاہ نہیں ہیں۔ افغان مسئلے سے متعلق تین بنیادی زاویے موجود ہیں۔

1- مذہبی نقطہ نظر

2- ڈاؤن ٹو ٹاپ اپروچ

3- ٹاپ ٹو ڈاؤن اپروچ

مذہبی نقطہ نظر سے افغان مسئلے کی گتھی کو سلجھانا تقریباً ناممکن ہے۔ اگر ایک فریق غزوۂ ہند اور خراسان سے متعلق قرآنی آیات، احادیث، تشریحات پیش کر کے ان کا اطلاق طالبان پر کرے گا تو فریق مخالف خوارج کی نشانیاں اور وقتاً فوقتاً ان کے خروج سے متعلق مذہبی کتابوں سے مواد نکال کر ان کا اطلاق طالبان پر کرے گا۔ نہ وہ ان کے دلائل مانیں گے نہ یہ ان کے دلائل کو معتبر سمجھیں گے اور مسئلہ جوں کا توں رہے گا۔ اس لیے اس نقطہ نظر کے ساتھ اس مسئلے کو نہیں سمجھا جا سکتا۔

دوسرا نقطہ نظر ڈاؤن ٹو ٹاپ اپروچ ہے۔ اس میں چھوٹے چھوٹے واقعات کا تجزیہ کر کے اور ان میں ایک ربط قائم کر کے کسی نتیجے تک پہنچا جاتا ہے۔ زیادہ تر تجزیہ کار اور عوام اسی طریقے سے نتائج اخذ کرتے ہیں لیکن یہ طریقہ افغانستان کے مسئلے کو سمجھنے کے حوالے سے زیادہ معاون نہیں ہے۔ کیونکہ افغانستان کی صورتحال اس قدر پیچیدہ ہے اور اتنے زیادہ کردار اور محرک اس مسئلے میں شامل ہیں کہ ہر واقعے کا علم میں آنا مشکل ہے اور دوسرا مختلف کرداروں کی طرف سے ڈبل کراس کرنے کی وجہ سے یہ ضروری نہیں کہ جس خبر کی بنیاد پر آپ تجزیہ کر رہے ہوں وہ خبر درست ہو۔ لہٰذا مسئلہ افغانستان کو سمجھنے کے لیے یہ طریقہ کار بھی کوئی زیادہ کارگر نہیں ہے۔

تیسرا اہم نقطہ نظر ٹاپ ٹو ڈاؤن اپروچ ہے۔ اس اپروچ کو انٹرنیشنل ریلیشنز میں سب سے بہتر مانا جاتا ہے۔ اس میں گلوبل آرڈر میں ہونے والی تبدیلیوں کو بنیاد بنا کر اس کے کسی خطے میں ممکنہ اثرات اور اقوام کی پالیسیوں کا تجزیہ کیا جاتا ہے۔ اس مضمون میں اسی نقطہ نظر کو سامنے رکھتے ہوئے افغانستان کی صورتحال کو سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے۔

ٹاپ ٹو ڈاؤن اپروچ کے مطابق گلوبل آرڈر میں ہونے والی تبدیلیاں نیشنل اور سب نیشنل لیول پر بننے والی پالیسیوں اور واقعات پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ طالبان نے پہلی بار کابل 1996 میں فتح کیا تھا اس وقت سوویت روس کے ٹکڑے ہوئے ابھی پانچ سال ہوئے تھے اور دنیا کا آرڈر ایک مضبوط Uni polarity پر مشتمل تھا۔ امریکہ واحد سپر پاور تھا اور اس کے عزائم کی راہ میں کوئی ملک بھی مزاحم نہیں ہو سکتا تھا۔ یاد رہے کہ انٹرنیشنل ریلیشنز میں طاقت کا مطلب “کسی ریاست کی بین الاقوامی معاملات پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت ہے۔“ اگر اس تعریف کی رو سے دیکھا جائے تو 1996 میں امریکہ ایک انتہائی طاقتور ملک تھا جو اپنی مرضی کا کوئی بھی کھیل اپنی طاقت کے بل بوتے پر کھیل سکتا تھا۔ لیکن آج 2021 میں گلوبل آرڈر کافی حد تک تبدیل ہو چکا ہے آپ اس کو ایک کمزور Uni polarity کہہ سکتے ہیں۔ آج امریکہ کی بین الاقوامی معاملات پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت کافی حد تک کم ہو چکی ہے۔ اور طاقت کے نئے ابھرتے ہوئے مراکز بین الاقوامی معاملات پر اثرانداز ہو رہے ہیں۔ اب اگر طالبان کی 1996 کی کابل فتح اور 2021 میں کابل میں داخل ہونے کو ایک ہی رنگ دیا جائے اور وہی 1996 والا تجزیہ کاپی کر کے پیسٹ کر دیا جائے تو یہ نا انصافی ہو گی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بالواسطہ طور پر یہ تسلیم کیا جا رہا ہے کہ امریکہ آج بھی اتنا ہی طاقتور ہے جتنا 1996 میں تھا۔ جو کہ حقیقت کہ بالکل برعکس ہے۔ اس لیے آج جب ہم افغانستان کے مسئلے کو سمجھنا چاہتے ہیں تو موجودہ گلوبل آرڈر میں ہونے والی تبدیلیوں کو بھی اپنے تجزیے میں جگہ دینی ہو گی۔

2013 میں چین نے اپنے میگا ون بیلٹ ون روڈ پراجیکٹ کا اعلان کیا دوسری طرف امریکہ کے اس وقت کے صدر باراک اوباما نے Operation Enduring Freedom کے خاتمے کا اعلان کرتے ہوئے 2014 کے آخر تک امریکی فوجیوں کی افغانستان سے واپسی کا اعلان کیا۔  امریکہ کی China containment پالیسی ویت نام کی جنگ سے جاری تھی لیکن نائن الیون کے بعد اس میں زیادہ شدت آتی گئی۔ امریکہ کا افغانستان میں ڈیرے ڈالنے کا مقصد بھی چین کو contain کرنا اور وسط ایشیائی ریاستوں کو روس کے اثر سے آزاد کروانا تھا۔ چین نے اس containment پالیسی کا توڑ اپنے ون بیلٹ ون روڈ پراجیکٹ سے نکالا۔ ون بیلٹ ون روڈ پراجیکٹ کو ایسے ڈیزائن کیا گیا کہ اس کو افغانستان کے بغیر بھی بآسانی مکمل کیا جا سکتا ہے۔ اس پراجیکٹ کے اعلان کے بعد امریکہ کو اندازہ ہو گیا تھا کہ اب افغانستان میں مزید قیام زیادہ سود مند نہیں ہو گا اس لیے 2014 کے آخر تک امریکہ نے افغانستان سے اپنی واپسی کا اعلان کر دیا تھا۔ لیکن جب 2014 میں امریکہ نے افغانستان سے نکلنے کے کوشش کی تو بین الاقوامی برادری اور اپنے اتحادیوں کے دباؤ پر امریکہ اپنے انخلاء کو مکمل نہیں کر سکا۔ اس کے علاوہ بھی امریکہ کے افغانستان میں قیام کے کچھ ثانوی مقاصد بھی تھے۔ جن میں سے ایک خطے میں اپنے حریف ممالک میں انتہا پسندی کو بڑھاوا دینا۔ لیکن یہاں بھی چین اور پاکستان اور روس نے ایک بہترین کوآرڈینیشن کے ذریعے سے نہ صرف دہشت گردی کے جن کو کنٹرول کیا بلکہ اس کو بوتل میں بند بھی کیا۔ CSTO اور SCO کے پلیٹ فارم سے بننے والی مشترکہ حکمت عملی کے نتیجے میں امریکہ اپنے افغانستان میں قیام سے خاطرخواہ مقاصد حاصل نہیں کر سکا۔ ٹرمپ نے الیکشن America first کے نعرے پر لڑا اور جیتتے ہی افغانستان سے واپسی کا اعلان کر دیا۔

لیکن اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امریکہ کے دنیا بھر میں اپنے ملک کے علاوہ سات سو سے زیادہ فوجی اڈے ہیں اگر وہ دو چار اڈے افغانستان میں بھی قائم رکھتا تو یہ اس کے لیے کوئی بہت بڑا مسئلہ نہیں تھا؟

اس سوال کا جواب چین کی ناقابل یقین معاشی ترقی میں مضمر ہے۔ 2018 تک امریکہ کا چین کے ساتھ تجارتی خسارہ 323 ارب ڈالر تک پہنچ چکا تھا اور یہ وقت کے ساتھ بڑھتا چلا جا رہا تھا کہ ٹرمپ نے 2019 میں چین کے ساتھ تجارتی جنگ کا آغاذ کر دیا۔ دوسری طرف QUAD گروپ کے فعال ہونے سے اب امریکہ کے پاس پہلے سے زیادہ پالیسی آپشنز موجود تھے۔ اب مستقبل کی کسی جنگ کا میدان انڈو پیسفک ریجن تھا۔ اور افغانستان ایک land locked ملک ہونے کی حیثیت سے اس میں کسی صورت بھی مددگار ثابت نہیں ہو سکتا ہے۔ کرونا کی وبا نے اس سارے عمل میں ایک catalyst کا کام کیا اور امریکہ اور یورپ کی معیشت کو ہلا کر رکھ دیا۔ امریکہ کے لیے اور برا یہ ہوا کہ کہ چین کرونا کو کنٹرول کرنے میں اور اس کے اثرات سے بچنے میں کافی حد تک کامیاب رہا۔ ایسے میں افغانستان اب امریکہ کے لیے ایک ایسا ناسور بن چکا تھا جہاں امریکہ کے ڈالر پانی کی طرح بہہ رہے تھے اور کوئی خاص تزویراتی فائدہ بھی حاصل نہیں ہو پا رہا تھا۔ اس کے علاوہ بھی خطے میں بے شمار مسائل کا امریکہ کو سامنا تھا۔ جن میں کچھ کو مختصراً ذکر کیا جاتا ہے

- افغانستان میں اشرف غنی کی نا اہل اور کرپٹ حکومت اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کی بجائے مکمل طور پر امریکہ پر انحصار کی ہوئی تھی۔ اور امریکہ مخالف جذبات افغانستان میں اور خطے میں بڑھ رہے تھے۔

- چین نے افغان حکومت کو بھاری پیسے کھلا کر افغانستان میں معدنیات کے تمام اہم ٹھیکے حاصل کر لیے تھے۔ اب امریکہ افغانستان میں سیکیورٹی پر خرچ کر رہا تھا اور چین معدنیات نکال کر منافع کما رہا ہے۔

- پاکستان کی فوج نے نہ صرف اپنے ملک میں آپریشن کر کے دہشت گردی کو کنٹرول کر لیا ہے بلکہ افغانستان کے ساتھ سرحد پر باڑ لگا کر نقل وحمل کو کافی حد تک کنٹرول کر لیا ہے۔ اب طالبان کے افغانستان میں مستحکم ہونے سے تحریک طالبان پاکستان کو بھی ایک نئی زندگی مل سکتی ہے۔

- ساؤتھ چائنا سی، مڈل ایسٹ، یوکرائن میں نئی جنگ کے بادل منڈلا رہے ہیں اور کوئی بھی نئی جنگ شروع کرنے سے پہلے افغانستان کی جنگ کو کسی نتیجے تک پہنچانا ضروری تھا۔

-سعودی عرب میں چلنے والے اصلاحات کے عمل کے نتیجے میں اب امریکہ کی ایسٹیبلشمنٹ کو انتہا پسندی کی نئی نرسری کی تلاش تھی جسے افغانستان کو طالبان کے حوالے کر کے بآسانی حاصل کیا جاسکتا ہے۔

ان حالات میں امریکہ نے اپنے ہاتھ میں موجود ترپ کا پتہ کھیلا۔ اور طالبان کے لیے راستہ ہموار کرتے ہوئے افغانستان سے نکل گیا۔ طالبان سیاسی شعور سے عاری ایک انتہا پسند مذہبی گروہ ہے جس کو کوئی بات سمجھانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے اور جس طرح ان کے سپرد افغانستان کیا گیا ہے اس سے لگتا یہی ہے کہ امریکہ طالبان کی بےوقوفیوں کو مستقبل میں بھی اپنے عزائم کی تکمیل کے لیے استعمال کرنا چاہتا ہے۔ لیکن دیکھنا یہ ہو گا کہ وہ اپنے مقصد میں کس حد تک کامیاب ہوتے ہیں۔ کیونکہ اب کی بار خطے کے ممالک پہلے سے اس صورتحال کے لیے نہ صرف تیار تھے بلکہ طالبان کے ساتھ کافی عرصے سے مستقل رابطے میں تھے۔

 پاکستان، چین اور روس کے ساتھ طالبان رہنماؤں کی کئی ملاقاتیں ہوئیں ہیں اور طالبان کے کابل پر قبضے کے بعد بھی پاکستان، روس، اور چین کے سفارت خانے وہاں مستقل کام کر رہے ہیں۔ اور طالبان کو سمجھانے کی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں لہذا ابھی کسی قسم کی حتمی بات کرنا قبل از وقت ہو گا۔ طالبان کا عمل ان کے مستقبل کے کردار کو واضح کرے گا۔ خاص طور پر طالبان کی مندرجہ ذیل معاملات پر پالیسیاں ان کے مستقبل کے کردار کو واضح کریں گی:

١- جدید جمہوریت کو قبول کرتے ہیں یا اپنی پرانی طرز کی خلافت قائم کرتے ہیں۔

٢- ٹی ٹی پی، داعش اور دیگر انتہا پسند تنظیموں سے برات کرتے ہیں یا الحاق۔

٣- خواتین اور بنیادی انسانی حقوق کا کتنا احترام کرتے ہیں

٤- طالبان کی چین، روس اور ایران سے متعلق فارن پالیسی

٥- افغانستان میں موجود دوسری سیاسی اکائیوں کی حکومت میں شمولیت وغیرہ

 

طالبان کے افغانستان پر قبضے کے پاکستان پر ممکنہ اثرات:

بدقسمتی سے طالبان کے افغانستان پر قبضے کے انتہائی نقصان دہ اثرات پاکستان پر پڑ سکتے ہیں۔ ایک تو ٹی ٹی پی اور انتہا پسندی کو ایک نئی توانائی حاصل ہو سکتی ہے دوسرا امریکہ اور یورپی ممالک اپنی فیس سیونگ کے لیے اپنی شکست کا ملبہ پاکستان پر ڈال سکتے ہیں کہ پاکستان نے ہمیں ڈبل کراس کیا اور بیس سال تک طالبان کے رہنماؤں کو اپنے ملک میں پناہ دیے رکھی اور پھر اسامہ بن لادن بھی پاکستان سے ہی برآمد ہوا تھا اس لیے غالب امکان یہ ہے امریکہ اور بعض یورپی ممالک پاکستان پر اقتصادی پابندیاں لگا سکتے ہیں جس کے اثرات پاکستان کی کمزور معیشت کے لیے انتہائی مہلک ہوں گے۔ اور سیاسی عدم استحکام پاکستان میں جنم لے سکتا ہے۔