سخن کے آئنوں کو پاش پاش کرتے رہے
سخن کے آئنوں کو پاش پاش کرتے رہے
ہم اپنے لفظوں میں معنی تلاش کرتے رہے
لگاوٹوں سے رقیبوں نے جب بھی بہلایا
محبتوں کے سبھی راز فاش کرتے رہے
بچا تھا کچھ جو رگوں میں لہو تمنا کا
اسی کو بیچ کے حاصل معاش کرتے رہے
شکست رنگ سے خوشبو بھی ریزہ ریزہ ہوئی
چمن میں ہم یہی ریزے تلاش کرتے رہے
انا کی راکھ ہے لپٹی ہوئی چٹانوں سے
یہ کون لوگ یہاں بود و باش کرتے رہے
بچھڑ گئے تھے سر شام ہی جو ہم سے کرمؔ
ہم ان ستاروں کو شب بھر تلاش کرتے رہے