سقوط-ڈھاکہ

نظم یا مشرقی پاکستان کا نوحہ : میں کیا بتاؤں کسے سناؤں ، عجب انوکھا سا حادثہ ہے

سقوط ڈھاکہ

سولہ دسمبر 1971 کو جو سانحہ ہم پر گزرا، اس کو بہت سے ناموں سے پکارا گیا ، یعنی سقوطِ ڈھاکہ ، شکستِ آرزو ، خوابِ شکستہ ،وغیرہ ۔ اس اشک بار داستان پر بہت سوں نے قلم اٹھایا ، مگر اس موضوع پر اس نظم سے بہتر شاید کچھ نہیں لکھا گیا۔ یہ مشرقی پاکستان میں موجود کسی ایسے محب وطن پاکستانی کے قلم سے نکلا ہوا نوحہ ہے، جس نے لمحوں میں اپنے وطن کو پرایا ہوتے دیکھا۔

مزید پڑھیے

سولہ دسمبر 1971 : سقوط ڈھاکہ تاریخ کے آئینے میں

  • نیرہ نور خالد
سقوط ڈھاکہ

جنرل جیکب نے کاغذات پاکستانی حکام کے حوالے کیے۔ جنرل فرمان نے کہا: یہ ہندوستان اور بنگلہ دیش کی مشترکہ کمان کیا چیز ہے،ہم اسے تسلیم نہیں کرتے۔ جنرل جیکب نے کہا:مجھے اس میں رد و بدل کا اختیار نہیں۔ انڈین ملٹری انٹیلی جنس کے کرنل کھیرا نے لقمہ دیا:یہ ہندوستان اور بنگلہ دیش کا اندرونی معاملہ ہے،جہاں تک آپ کا تعلق ہے ، آپ صرف ہندوستانی فوج کے سامنے ہتھیار ڈال رہے ہیں۔ جنرل فرمان نے کاغذات جنرل نیازی کے آگے سرکا دیے۔ جنرل نیازی، جو ساری گفتگو سن رہے تھے،چپ رہے۔ اس خاموشی کو ان کی مکمل رضا سمجھا گیا۔

مزید پڑھیے

وہ ہم سفر تھا    :سقوط ڈھاکہ پر نصیر ترابی کے آنسو

  • فرقان احمد
سقوط ڈھاکہ

تاریخ نیا موڑ لے رہی تھی، نیا باب کھل رہا تھا۔    آہ!! ! " کسے پکار رہا تھا وہ ڈوبتا ہوا دن"!           اس بات کی خبر رات گیارہ بجے دفتر میں بیٹھے نصیر ترابی کو پہنچی۔ یہ ان کے لیے خبر نہیں تھی، سانحہ تھا۔  اب جو حقیقت ہو چکا تھا۔ ان  کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو   گئے۔ انہوں نے قلم  اٹھایا اور صفحہ قرطاس پر جذبات منتقل کر ڈالے

مزید پڑھیے