سوچتے اور جاگتے سانسوں کا اک دریا ہوں میں

سوچتے اور جاگتے سانسوں کا اک دریا ہوں میں
اپنے گم گشتہ کناروں کے لیے بہتا ہوں میں


بیش قیمت ہوں مری قیمت لگا سکتا ہے کون
تیرے کوچے میں بکوں تو پھر بہت سستا ہوں میں


خواب جو دیکھے تھے میں نے وہ بھی اب دھندلا گئے
اب تو تم آ جاؤ صاحب اب بہت تنہا ہوں میں


جل گیا سارا بدن ان موسموں کی آگ میں
ایک موسم روح ہے جس میں کہ اب زندہ ہوں میں


میرے ہونٹوں کا تبسم دے گیا دھوکا تجھے
تو نے مجھ کو باغ جانا دیکھ لے صحرا ہوں میں


میں تو یارو آپ اپنی جان کا دشمن ہوا
زہر بن کے آپ اپنی روح میں اترا ہوں میں


دیکھنے میری پذیرائی کو اب آتا ہے کون
لمحہ بھر کو وقت کی دہلیز پر آیا ہوں میں


تو نے بے دیکھے گزر کر مجھ کو پتھر کر دیا
تو پلٹ کر دیکھ لے تو آج بھی ہیرا ہوں میں


لفظ گونگے ہیں انہیں گویائی دینے کے لیے
زندگی کے سچے لمحوں میں غزل کہتا ہوں میں