سکھایا عشق نے مجھ کو کہ جنگجو کیا ہے
سکھایا عشق نے مجھ کو کہ جنگجو کیا ہے
یہ کیا ہے زخم کی شدت کہ پھر رفو کیا ہے
اگر سکوں ہے کسی اک جگہ ٹھہر جانا
تو پھر یہ خوب سے برتر کی جستجو کیا ہے
اصول ہوتے ہیں کچھ دوستو محبت کے
اگر نماز ہے سب کچھ تو پھر وضو کیا ہے
اگر ہو چھوڑ گئے مجھ کو چھوڑنے والے
تو تیری یادوں سا یہ میرے روبرو کیا ہے
ستارے توڑنا ممکن ہے یا نہیں ممکن
تم اس کو چھوڑو بتاؤ کہ آرزو کیا ہے
مرے ہیں سامنے میرے مرے بغیر ترے
اگر ہیں یار یہ میرے تو پھر عدو کیا ہے
تمہاری محفلوں میں آنا پھر چلے جانا
اگر زوال ہے یہ بھی تو سرخ رو کیا ہے