شورش جنون

بہار آئی ہے شورش ہے جنون فتنہ ساماں کی
الٰہی خیر رکھنا تو مرے جیب و گریباں کی
بھلا جذبات الفت بھی کہیں مٹنے سے مٹتے ہیں
عبث ہیں دھمکیاں دار و رسن کی اور زنداں کی
وہ گلشن جو کبھی آزاد تھا گزرے زمانے میں
میں ہوں شاخ شکستہ یاں اسی اجڑے گلستاں کی
نہیں تم سے شکایت ہم صفیران چمن مجھ کو
مری تقدیر ہی میں تھا قفس اور قید زنداں کی
زمیں دشمن زماں دشمن جو اپنے تھے پرائے ہیں
سنو گے داستاں کیا تم مرے حال پریشاں کی
یہ جھگڑے اور بکھیڑے میٹ کر آپس میں مل جاؤ
عبث تفریق ہے تم میں یہ ہندو اور مسلماں کی
سبھی سامان عشرت تھے مزے سے اپنی کٹتی تھی
وطن کے عشق نے ہم کو ہوا کھلوائی زنداں کی
بحمد اللہ چمک اٹھا ستارہ میری قسمت کا
کہ تقلید حقیقی کی عطا شاہ شہیداں کی
ادھر خوف خزاں ہے آشیاں کا غم ادھر دل کو
ہمیں یکساں ہے تفریح چمن اور قید زنداں کی