شکوہ گلہ مطالبہ فریاد کچھ تو ہو

شکوہ گلہ مطالبہ فریاد کچھ تو ہو
جینا اگر ہے اے دل برباد کچھ تو ہو


شیرین و دل نواز کوئی خواب ہی سہی
آخر تسلیٔ دل ناشاد کچھ تو ہو


خوش آ سکی نہ لذت تحسین نا شناس
تعریف بھی اگر ہو تو بنیاد کچھ تو ہو


ہاں مسکراؤ کھل کے سر دار دوستو
دل کش تمہارے قتل کی روداد کچھ تو ہو


آؤ نا گائیں نغمۂ آزادیٔ چمن
کنج قفس میں خاطر صیاد کچھ تو ہو


حسرت سے تک رہی ہے مری التجا حضور
کب تک خموش رہیے گا ارشاد کچھ تو ہو


احباب کے دلوں پہ کوئی نقش چھوڑ جا
اے رازؔ تیرے ذکر کی بنیاد کچھ تو ہو