شیشوں کا مسیحا کوئی نہیں
اور تصویر اس کے ہاتھوں سے گرگئی!
خوبصورت فریم ٹوٹ گیا۔ شکستہ شیشے کے ٹکڑے فرش پر بکھر گئے۔ اسے ایسا محسوس ہوا جیسے شیشے کے یہ چھوٹے چھوٹے ٹکڑے اس کے دل کی گہرائیوں میں سوئیوں کی طرح چبھ رہے ہوں،
’’میں بیٹھ سکتا ہوں‘‘ اسلم مسکراتے ہوئے بولا۔
’’شوق سے تشریف رکھیے اس نے بھی مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
اور ہم سب خالی کرسیوں پر بیٹھ گئے۔
بیرے کو بلاکر اس نے چار کپ چائے کا آرڈر دیا۔
یہ ہیں ہمارے کلاس فیلو مسٹر فیروزؔ ۔ اردو میںآنرز لے رکھا ہے آپ کو ادبی ذوق ہے اور اچھے اشعار کہتے ہیں اسلمؔ نے اپنے مخصوص انداز میں اس شخص کا تعارف کرایا اور یہ ہیں ریاضؔ اکنامکس آنرز اور آپ ہیںیونسؔ آپ نے بھی اکنامکس آنرز لے رکھا ہے۔
اتنے میں بیرا چائے کی پیالیاں رکھ گیا اور ہم سب پینے لگے۔
’’کچھ سنائیے فیروز صاحب!‘‘
میں نے چائے کی چُسکی لیتے ہوئے کہا۔ اسلمؔ اور یونس نے میری تائید کی۔
فیروز کے لبوں پر مسکراہٹ دوڑ گئی۔
چائے ختم کرنے کے بعد ہمارے اصرار پر اس نے نہایت مترنم سروں میں اپنی پُر حسرت غزل سنائی۔ غزل سناتے وقت اس کے چہرے سے غم واندوہ، یاس وناامیدی کا ترشح ہورہا تھا۔
اس کے اس بے پناہ غم اور لا محدود یاس کو جاننے کے لیے میرے دل میں تجسس جاگ اُٹھا۔ لیکن میں نے پہلی ملاقات میں کچھ پوچھنا مناسب نہ سمجھا۔
’’الکا‘‘ ہوٹل کی عالیشان بلڈنگ سے نکل کر ہم لوگ فٹ پاتھ پر آگئے۔ وہاں سے ہماری دو راہیں تھیں۔ فیروز کو چندوارہ جانا تھا اور ہمیں ہاسٹل۔ لہذا ہم لوگوں نے وہاں سے اپنی اپنی راہ پکڑ لی۔
آخر ایک دن فیروزؔ کو بھی ہاسٹل میں جگہ مل گئی، بلکہ وہ ہمارا روم میٹ بھی ہوگیا۔ اب ہماری زندگی مسرتوں اور رنگینیو ں کے بیچ گزر نے لگی۔ رفتہ رفتہ فیروزؔ سے میری گہری دوستی ہوگئی اور بہت جلد ہم ایک دوسرے کے نزدیک آگئے۔
اکثر فیروزؔ کو میں بہت مغموم پاتا۔ ایک دن میں نے اس کی زندگی کی اس المناکی کے بارے میں پوچھ ہی لیا جس نے اس کے روز وشب کو حسرتوں میں بدل دیا تھا۔ اس نے اپنی ساری کہانی سنادی۔ کہانی سناتے ہوئے اس کی پلکیں کئی بار نم ہوگئیں۔
’’ اس لڑکی کا نام کیا ہے؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’نام تو کچھ اور ہے لیکن سب اسے چاند کہتے تھے۔ در اصل وہ چاند کہے جانے کی مستحق بھی تھی۔‘‘
اس نے گہری سانس لیتے ہوئے کہا۔
وہ چاند کا عشق تھا جس نے اسے ذہنی کرب واضطراب میں مبتلا کردیا تھا۔ وہ چاند کی یاد تھی جو اس کے ذہن پر ہتھوڑے بن کر ضربیں لگانے لگی تھی۔
چاندؔ سے اس کی ملاقات شیریں کے ذریعہ ہوئی تھی۔ وہ شیریںؔ کی کلاس فیلو تھی اور سہیلی بھی۔ اور شیریںؔ فیروز کی ماموں زاد بہن تھی۔ فیروزؔ نے اپنے ماموں کے ہاں رہ کر آئی اے کیا تھا۔
چاند بڑی حسین اور خوبصورت تھی۔ اس نے پہلی بار چاند کو دیکھا تو اس کے حسین خد وخال دیکھ کر دم بخود رہ گیا تھا۔ لمحہ بھر کے لیے وہ اس کے حسن وجمال کے سحر میں کھوسا گیا۔ اور اسے مبہوت دیکھ کر شیریں نے طنز کیا تھا۔
’’کہاں کھو گئے فیروز بھائی؟‘‘
اس دن ایک گھنٹہ تک ادبی گفتگو ہوتی رہی چاند بھی اپنی جگہ ساکت وصامت، بے حس وحرکت بیٹھی گفتگو میں حصہ لے رہی تھی۔ دوران گفتگو اس کے پنکھڑیوں جیسے پتلے نازک لبوں پر معصوم اچھوتا تبسم آتا تو شگوفے کھل جاتے۔ اگر ہنس دیتی تو دور مندر میں گھنٹیاں سی بجنے لگتیں۔ اور اس کی آواز ! جیسے منھ سے پھول جھڑ رہے ہوں۔ اتنی کم مدت میں اس کی سنجیدگی اور بلند خیالات نے فیروزؔ کو اپنا گرویدہ بنالیا۔
اس رات وہ نہیں سو سکا اور نہایت کرب واضطراب کے عالم میں پچھلی رات تک اپنے کمرے میں ٹہلتا رہا۔ آج تک وہ کسی کے حسن وشباب سے متاثر نہیں ہوا تھا لیکن اس دن چاند کے ملکوتی حسن کے بے پناہ ساحرانہ قوتوں نے اس کے احساسات کی دنیا میں اتھل پتھل پیدا کردی وہ تو اجنتا کے کسی سنگ تراش کا شاہکار معلوم ہورہی تھی۔
ہر وقت وہ ا س کی یاد میں ماہی بے آب کی مانند تڑپنے لگا۔ اس کے مقدس حسین تصور سے اس کا دل بلیوں اچھلنے لگا۔ اس کے حساس دل میں ایک انوکھی خلش اور نرالی چبھن کا احساس ہونے لگا۔ نتیجتاً اس کی شاعری میں ایک وجدانی کیفیت طاری ہوگئی، سوز و گداز آگیا اور اس نے اپنے جذبات کے اظہار کے لیے نظم کو اپنایا۔ ع
دونوں طرف تھی آگ برابر لگی ہوئی
چاندؔ بھی فیروز کی شخصیت سے کافی متاثر ہوئی۔ وہ اکثر شیریں کے گھر آیا کرتی اور بسا اوقات فیروزؔ کی عدم موجودگی میں اس کے کمرے میں چلی جاتی نہایت انہماک سے ایک ایک شے کا جائزہ لیتی اور انجانے روحانی جذبے کے تحت میز اور بستر پر بکھری کتابوں، کاپیوں اور رسائل کو قرینے سے بک سلف میں سجا دیتی۔ کافی دیر تک فیروز کے کمرے میں بیٹھی رسالے کا مطالعہ کرتی رہتی اور حسرت اور پیار بھری نظروں سے ہر شے کو دیکھتی واپس چلی آتی۔
فیروزؔ کی جذبات انگیز نظموں نے چاند کو زندگی کے سوز وساز سے روشناس کرایا۔ اور اس کی روح ایک انجانی تڑپ سے آشنا ہوئی۔ پہلی بار اس کے دل میں محبت کا جوش ابھرا اور کوئی جذبہ موجزن ہوا۔
رفتہ رفتہ فیروز اس کے احساسات وتصورات کی حسین دنیا پر چھاگیا۔ بے پناہ محبت نے اس کی آنکھوں کی نیند چھین لی۔ اس کی پرسکون اور مطمئن زندگی میں تلاطم آگیا۔ ایک ہلچل سی پیدا ہوگئی۔ محبت کی دنیا میں قدم رکھتے ہی اس کے دل کی دھڑکنیں کسی کو پکارنے لگیں۔
لیکن وہ اظہار محبت سے قاصر تھی وہ زبان نہیں کھول سکتی تھی اس لیے کہ وہ ایک مشرقی خاتون تھی جس کے سینے میں دل تو ہوتا ہے مگر منھ میں زبان نہیں، جو اپنے من مندر میں کسی دیوتا کی پوجا کرسکتی ہے لیکن دست دعا نہیں اٹھا سکتی جواپنے جذبات اور تمناؤں کا گلا گھونٹ سکتی ہے لیکن خود ان کی تکمیل کی جانب قدم نہیں بڑھا سکتی۔ نسوانی فطرت کو یہ کب گوارہ ہے کہ وہ خود کسی سے محبت کی بھیک مانگے!! لہذا وہ اپنی ہی خاموش محبت کی دھیمی دھیمی آنچ میں گیلی لکڑی کی طرح سلگتی رہی
شعلۂ عشق دل میں فروزاں رہا
زندگی شمع کی طرح جلتی رہی
فرصت کا دن تھا۔ چاندؔ شیریںؔ سے ملنے آئی۔ لیکن وہ گھر پر نہیں تھی۔ فیروزؔ بھی کہیں گیا ہوا تھا۔ وہ اس کے کمرے میں چلی گئی اور پلنگ پر لیٹ کر ماہنامہ ’’صبح نو‘‘ کا تازہ شمارہ پڑھنے لگی جس میں فیروزؔ کی بھی ایک نظم شائع ہوئی تھی اچانک فیروز کمرے میں داخل ہوا اور وہ سراسیمگی کے عالم میں اٹھ کھڑی ہوئی۔ دفعتاً دونوں کی نگاہوں کا تصادم ہوگیا
نظر ان سے ٹکڑائی اور دل یہ سمجھا
بیاباں میں فصلِ بہار آرہی ہے
اور چاندؔ کمرے سے باہر جانے لگی۔
ارے واہ! یہ کیا؟ بیٹھ جاؤ چاند!
فرط مسرت سے فیروزؔ نے کرسی کی طرف انگلیوں سے اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
اور وہ بیٹھ گئی۔
تھوڑی دیر اِدھر اُدھر کی باتیں ہوتی رہیں۔ پھر فیروزؔ پوچھ بیٹھا۔
’’تم اتنی حسین کیوں ہو چاندؔ ؟‘‘
چاند کی آنکھوں میں ایک خاص چمک پیدا ہوگئی... ہر عورت اپنے حسن کی تعریف سن کر مسرت سی محسوس کرتی ہے۔
پھر یہ شعر بے ساختہ فیروز کی زبان پر آگیا
تری مست آنکھوں کے قربان جاؤں
شراب محبت بھری مل رہی ہے
اور چاند لاجونتی کی طرح شرما گئی۔ بار حیا سے اس کی گھنی لابنی لابنی نوک دار پلکیں جھک گئیں۔ اور عارض نازک پر شفق کی سی سرخی پھیل گئی۔
فیروزؔ جذبات کی رو میں بہت کچھ کہہ گیا اور وہ مارے شرم کے پسینے میں نہاسی گئی۔
فیروزؔ کے الفاظ اس کے کانوں میں کیف وسرور کی لہریں بن کر مدھر رس گھولنے لگے اور اس کے ذہن میں نشاط وانبساط کی کہکشاں جگمگا اُٹھی۔ آج پہلی بار محبت کے نرم ونازک اور جذبات انگیز الفاظ سے اس کے کان آشنا ہوئے۔ پہلی بار وہ محبت کی وجدانی کیفیت سے آگاہ ہوئی، اسے ساری کائنات فرط مسرت سے ناچتی ہوئی محسوس ہوئی۔ اور اس کا دل وفور محبت سے دھڑکنے لگا
عالم قربت یار کیا پوچھیے
دل دھڑکتا رہا جاں مچلتی رہی
چاندؔ کے تمام رگ وپے میں پیار کا آتشیں لاوا پھوٹنے لگا اور شعلۂ عشق ہر عضو کو جلانے لگا۔ دل میں محبت کا سمندر موجزن اور چہرے پر پیار مترشح تھا۔ وہ کچھ کہنا چاہ رہی تھی، جذبۂ محبت اسے اکسا رہا تھا کہ وہ محبت کا جواب محبت سے دے۔ لیکن اس کی زبان اس کا ساتھ نہیں دے رہی تھی۔ نسوانیت نے اسے زبان کھولنے سے قاصر رکھا۔ لیکن آنکھیں دلی کیفیات کی غمازی کررہی تھیں۔
رفتہ رفتہ ان کی ملاقاتیں بڑھتی رہیں۔ دوریاں قربت میں مدغم ہوتی گئیں۔ ان کے درمیان سے تکلّفات کی دیواریں خود بخود مسمار ہوگئیں اور ان کی آب زمزم کی طرح پاکیزہ اور گنگا جل کی مانند پوتر محبت بڑھتی رہی اور پروان چڑھتی رہی۔
لیکن ایک دن روایات ورسومات نے ان کی محبت کا گلا گھونٹ دیا۔ ان کی تمناؤں کا خون کردیا۔ آشاؤں کی چتا سلگ اٹھی اور چاندؔ ایک سرمایہ دار کی نذر کر دی گئی۔ قربانی کے بکرے کی طرح کچھ کہے بغیر اپنی زندگی اپنے والدین کی مسرتوں اور خوشیوں کی نذر کرنا پڑی۔
اور فیروزؔ کی دنیا ویران ہوکر رہ گئی اس کے خوابوں کے حسین شیش محل چکناچور ہوگئے، اس کی زندگی میں ایک خلا ہوگیا اور تب سے وہ مجسم کرب واضطراب بن کر رہ گیا۔ چاند کے چھن جانے سے اسے روحانی اذیت ہونے لگی۔
ایک روز بازار سے لوٹتے وقت میں اپنی شادی کی یادگار تصویروں میں فریم لگواکر ہاسٹل آیا تو فیروزؔ کمرہ میں میرا منتظر تھا اور جب وہ میرے ہاتھوں سے فریم کی ہوئی تصویریں لے کر دیکھنے لگا تو اس کی نظر ایک فریم پر جاکر رک گئی جس کے نیچے خوش خط تحریر میں ’’فرحت ریاض‘‘ لکھا تھا تصویر دیکھتے ہی وہ تلملا گیا۔ میں نے محسوس کیا اس کی آنکھیں بند ہو رہی ہیں۔ اس کے لب پھڑ پھڑائے۔ ’’چاندؔ ‘‘۔
اور تصویر اس کے ہاتھ سے گر گئی۔
خوبصورت فریم ٹوٹ گیا۔ شکستہ شیشے کے ٹکڑے فرش پر بکھر گئے۔ اسے ایسا محسوس ہوا جیسے شیشے کے یہ چھوٹے چھوٹے ٹکڑے اس کے دل کی گہرائیوں میں سوئیوں کی طرح چبھ رہے ہوں۔