شمس العلماء ڈپٹی نذیر احمد

"عرب، شام وروم، افریقہ، فارس کہیں کے مسلمان،  بیوہ کے دوسرے نکاح میں کسی طرح کی عار نہیں سمجھتے۔ یہ خاص کر کچھ ہندوستان ہی میں مسلمان کی شامت ہے کہ انھوں نے بیوہ کے دوسرے نکاح کو عیب سمجھ رکھا ہے۔ یہ ان پر ہندوؤں کے ساتھ رہنے کی پھٹکار ہے۔احمقوں نے ہندوؤں کی رسم تو اختیار کرلی مگر یہ نہ سمجھے کہ اس رسم کے پیچھے دین اور ایمان سب کھوبیٹھے۔ بیوہ کا نکاح نہ کرنا بھی بڑا بھاری گناہ ہے۔"

ڈپٹی نذیر احمد کے ناول ایامی سے اقتباس

6 دسمبر یومِ ولادت شمس العلما ء مولوی حافظ ڈپٹی نذیر احمد

شمس العلماء خان بہادر حافظ ڈپٹی مولوی نذیر احمد (ریاست حیدرآباد سے انہیں غیور جنگ کا خطاب دیا گیا تھا جسے انہوں نے قبول نہیں کیا آپ  6 دسمبر 1831  کو  ضلع بجنور کی تحصیل نگینہ کے ایک گاؤں ریہر میں پیدا ہوئے۔ ایک مشہور بزرگ شاہ عبد الغفور اعظم پوری کے خاندان سے تعلق رکھتے تھے، لیکن آپ کے والد مولوی سعادت علی غریب آدمی تھے اور یو پی کے ضلع بجنور کے رہنے والے تھے۔

شروع کی تعلیم والد صاحب سے حاصل کی۔ چودہ برس کے ہوئے تو دہلی آ گئے اور یہاں اورنگ آبادی مسجد کے مدرسے میں داخل ہو گئے۔ مولوی عبدالخالق ان کے استاد تھے۔

یہ وہ زمانہ تھا کہ مسلمانوں کی حالت اچھی نہ تھی۔ دہلی کے آس پاس برائے نام مغل بادشاہت قائم تھی۔ دینی مدرسوں کے طالب علم  اپنے محلے کے  گھروں سے روٹیاں لا کر پیٹ بھرتے تھے اور تعلیم حاصل کرتے تھے۔ نذ یر احمد کو بھی یہی کچھ کرنا پڑتا تھا، بلکہ ان کے لیے تو ایک پریشانی یہ تھی کہ وہ جس گھر سے روٹی لاتے تھے اس میں ایک ایسی لڑکی رہتی تھی جو پہلے ان سے ہانڈی کے لیے مصالحہ یعنی مرچیں، دھنیا اور پیاز وغیرہ پسواتی تھی اور پھر روٹی دیتی تھی اور اگر کام کرتے ہوئے سُستی کرتے تھے تو ان کی انگلیوں پر  سِل کا بٹہ مارتی تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس لڑکی سے ان کی شادی ہوئی۔

کچھ عرصہ بعد دلی کالج میں داخل ہوئے جہاں انہوں نے عربی، فلسفہ اور ریاضی کی تعلیم حاصل کی ۔

مولوی نذیر احمد نے اپنی زندگی کا آغاز ایک مدرس کی حیثیت سے کیا لیکن خداداد ذہانت اور انتھک کوششوں سے جلد ہی ترقی کرکے ڈپٹی انسپکٹر مدارس مقرر ہوئے۔ مولوی صاحب نے انگریزی میں بھی خاصی استعداد پیدا کر لی اور انڈین پینل کوڈ کا ترجمہ (تعزیرات ہند) کے نام سے کیا جو سرکاری حلقوں میں بہت مقبول ہوا اور آج تک استعمال ہوتا ہے۔ اس کے صلے میں آپ کو تحصیل دار مقرر کیا گیا۔ پھر ڈپٹی کلکٹر ہو گئے۔ نظام دکن نے ان کی شہرت سن کر ان کی خدمات ریاست میں منتقل کرا لیں جہاں انہیں آٹھ سو روپے ماہوار پر افسر بندوبست مقرر کیا گیا۔

ملازمت سے سبکدوش ہونے کے بعد مولوی صاحب نے اپنی زندگی تصنیف و تالف میں گزاری۔ اس علمی و ادبی میدان میں بھی حکومت نے انہیں 1897ء شمس العلماء کا خطاب دیا اور 1902ء میں ایڈنبرا یونیورسٹی نے ایل ایل ڈی کی اعزازی ڈگری دی۔ 1910ء میں پنجاب یونیورسٹی نے ڈی۔ او۔ ایل کی ڈگری عطا کی۔ آپ کا انتقال 3 مئی 1912ء میں ہوا۔ آپ اردو کے پہلے ناول نگار تسلیم کیے جاتے ہیں۔

آپ کی تصانیف میں مراۃ العروس (1869ء) ، توبتہ النصوح، بنات النعش، ابن الوقت، رویائے صادقہ، فسانہ مبتلا  ، ایامی، امہات الامہ، مواعظ حسنہ، الحقوق و الفرائض ، منتخب الحکایات  وغیرہ شامل ہیں

آپ کی ترجمہ کی ہوئی کتابوں کے نام درج ذیل ہیں:

ترجمہ قرآن مجید

تعزیرات ہند (انڈین پینل کوڈ)

قانونِ انکم ٹیکس 1861ء

قانونِ شہادت 1863ء

سموات 1876ء

آخری عمر میں ڈپٹی نذیر احمد پر فالج کا حملہ ہوا اوروہ  3 مئی 1912ء کو  دہلی میں وفات پا گئے

متعلقہ عنوانات