شہر میں آ گئے کیا لوگ بیابانوں کے

شہر میں آ گئے کیا لوگ بیابانوں کے
کرب میں ہو گئے گم قہقہے ارمانوں کے


تم نے دیکھے نہیں جذبوں کے فلک بوس شجر
شب کی تاریکی میں جلتے ہوئے دالانوں کے


ہم سے قائم ہے ترے لفظوں کا یہ شیرازہ
ہم سے کردار بنے ہیں ترے افسانوں کے


کیوں مجھے دکھ مرا اوروں سے جدا لگتا ہے
دکھ اگر ہوتے ہیں سب ایک سے انسانوں کے


کیسے آئے گی ترے جسم کی خوشبو مجھ تک
کھڑکیاں ہوتی نہ دروازے ہیں زندانوں کے


اب دعاؔ کس کی امیدوں کے سہارے پہ جئیں
ٹکڑے تو دیکھ لیے خواب میں گل دانوں کے