شہر کی ہنگامہ آرائی سے بے پروا ہے وہ

شہر کی ہنگامہ آرائی سے بے پروا ہے وہ
دھوپ نکلی ہے تو چوراہے پہ آ بیٹھا ہے وہ


چھو لیا گر بھول سے بھی تو جھلس جائے گا ہاتھ
پھول جس کو آپ نے سمجھا ہے انگارہ ہے وہ


مجرموں کی طرح میں اپنے مکاں میں بند ہوں
سر اٹھائے بے گناہوں کی طرح پھرتا ہے وہ


آؤ اس کو کھینچ لائیں شہرتوں کے شہر میں
چھپ کے کیوں گمنامیوں کے غار میں بیٹھا ہے وہ


بد گماں ہے مجھ سے لیکن پھر بھی میرا دوست ہے
جب ملا ہے تو گلے مل کر بہت رویا ہے وہ


تشنگی اس کی بجھانے والا کوئی بھی نہیں
سامنے پنگھٹ کے بیٹھا ہے مگر پیاسا ہے وہ


دوستی اپنی جگہ ہے اختلاف اپنی جگہ
آؤ اس کی بات تو سن آئیں کیا کہتا ہے وہ


ایک مدت سے عزیزؔ آیا نہیں ہے اس طرف
کیا خبر کس حال میں ہے اور کیا کرتا ہے وہ