شب سرور نئی داستاں وصال و فراق

شب سرور نئی داستاں وصال و فراق
نہ فکر سود و زیاں درمیاں وصال و فراق


میں اس سے بات کروں بھی تو کس حوالے سے
کہ مستعار مکاں میں کہاں وصال و فراق


اسی کے نام پہ جیتے ہیں اور مرتے ہیں
یہی ہے قصۂ آشفتگاں وصال و فراق


وہ کہہ گیا ہے کہ آؤں گا منتظر رہیو
میں مبتلائے یقین و گماں وصال و فراق


وہ پڑھ رہا تھا بڑے غور سے لہو کی سرشت
ہر ایک بوند کا سر نہاں وصال و فراق


ہوائے صبح نہ جانے کہاں کہاں لے جائے
شب مراد شب درمیاں وصال و فراق


میں اس کو ہاتھ لگاتا بھی کس طرح صہباؔ
عجیب کشمکش جاں اذاں وصال و فراق