شاید کہ بہار آئی
بیٹھے بیٹھے سفیدی پہ تاریخی کرنوں کا گھیرا کھلا
لمبی شاخوں کے سائے زمیں پر گرے
سانس میں پرزہ پرزہ ہوا
باس بن کر کھلی
میرے کمرے کی کھڑکی سے باہر بہار آ گئی
یا شاید تھکن اور اندھیرے میں کروٹ بدلتے ہوئے
میں نے سپنے میں دیکھا
بہار آ گئی
ایک بھولے ہوئے سال کے چاند کی روشنی
میرے ہاتھوں پہ ہے
ایسے الفاظ جیسے محبت بدن
روح اور دل کی پہنائیاں
ایسے الفاظ بھی جیسے
گھر راستہ منزلیں
اونچے اونچے درختوں کے پتے
ہمیشہ ہمیشہ تر و تازہ سبزہ
میں بیمار ہوں میرے ہاتھوں میں رعشہ ہے
ٹانگوں سے پنجر ادھڑتا چلا جا رہا ہے
یہاں کون دیکھے
زمانے کا اندھیر
آنکھوں میں پگھلی ہوئی فال
دن آگے پیچھے ہیں تالاب میں بچے پانی اڑاتے ہیں جیسے
پھسلتے ہیں موہوم موہوم
کبھی اونگھتے میں وہ سارے مناظر
جو دامن کو کھولے ہوئے میرے پہلو میں ہیں
میرے ہاتھوں سے گر جاتے ہیں
ایک جھونکا کتابوں کے اوراق میں
رات بھر جاگتا ہے
رات بھر نیند ہلکورے دیتی ہے
بستر پہ لیٹا ہوں کتنے ہی بستر قطاروں میں آگے
بچھے ہیں
میں ہر ایک بستر پہ لیٹا ہوں
دنوں کے سہارے
میں ماضی کی ریلنگ سے لگ کر کھڑا
لمبے ہاتھوں کی لرزش سے
اس کے بدن کو ہوا کی طرح چھو کے آگے نکل جاتا ہوں
اتنی صدیوں کی گلیوں میں رقصا برہنہ
جو میں ہوں
نہیں ہوں