سوال تجھ سے شب و روز میرا چلتا رہا

سوال تجھ سے شب و روز میرا چلتا رہا
جواب تیرا ہواؤں میں مجھ کو ملتا رہا


فلک پہ چاند ستاروں کا کارواں بھی بجھا
تمہاری یاد کا لیکن چراغ جلتا رہا


قریب مرگ جو دیکھا تو پاس کوئی نہ تھا
تمام عمر یہ پھر کون ساتھ چلتا رہا


بلا کے حبس میں ساری زمین سوکھ گئی
مگر یہ پیار کا پودا تھا پھر بھی پھلتا رہا


میں بے وفا بھی کہوں کس طرح تجھے جاناں
تو بن کے باد صبا روز مجھ سے ملتا رہا


میں اعتبار محبت کا تیری کیا کرتا
بیان تیرا تو ہر روز ہی بدلتا رہا


رفو میں کرتا بھی اعجازؔ کیسے زخموں کو
زباں کا زخم تھا یہ گفتگو سے سلتا رہا