ثقافت، ادب اور جمہوریت

ثقافت یعنی کلچر اور فطرت یعنی نیچرکی آویزش اور انسلاک ہمیشہ سے نہیں ہے۔ ثقافت کا سلسلہ آج سے محض چند ہزار سال پہلے شروع ہوا جب کہ نیچر کا عمل دخل قرنوں سے ہے۔ اس کرۂ ارض پر نیچر کا ایک اہم علامتی مظہر جنگل ہے جو ترتیب، سمت اور تاریخ کی کارفرمائی سے آزاد ہے۔ جنگل خودرو ہے۔ وہ زمین کی قوت کا بے محابا اور مسلسل اظہار ہے۔ قدیم انسانی قبائل جنگل سے پوری طرح منسلک ہونے کے باعث جنگل ہی کی طرح تاریخ سے ناآشنا، سمت سے بے نیاز، زماں سے آزاد اور اب کے لمحے پر رکے کھڑے تھے۔ جنگل ہی کی طرح وہ سدا دائرے میں حرکت کرتے تھے۔ وہ نیچر کا ایک اٹوٹ انگ تھے مگرپھر آج سے محض چند ہزارسال پہلے ثقافت کا انکھوا پھوٹا اور اس نے نیچر کو ترتیب، سمت اور تاریخ سے آشنا کرنے کا آغاز کردیا۔


کلچر کا لغوی مفہوم ہی تراش خراش ہے۔ جب انسان جنگل کے اندر راستے اور پگڈنڈیاں بناتا ہے، جنگل کے بعض حصوں کو صاف کرکے ان میں فصلیں اگاتا ہے یا جنگل کو چمن میں تبدیل کرتا ہے تو گویا کلچر کو وجود میں لاتا ہے۔


جنگل میں آسمان نظروں سے اوجھل ہوتا ہے، جس کے نتیجے میں لامسہ، شامہ اور سامعہ زیادہ فعال ہوتی ہیں مگر جب جنگل کے اندر راستے اور چاک نمودار ہوجاتے ہیں اور آسمان دکھائی دینے لگتا ہے تو باصرہ متحرک ہوجاتی ہے اور اس کے متحرک ہوتے ہی فاصلے ابھرآتے ہیں۔ کلچر، نیچر کی نابینا آنکھوں کونور مہیا کرتا ہے۔ اسے فاصلوں اور رفعتوں سے آشنا کرتا ہے۔ اس عمل کونیچر کی قلب ماہیت کا نام بھی دیا جاسکتا ہے۔


مگرکلچر کا عمل مسلسل نہیں ہے۔ نیچر کی صورت تو یہ ہے کہ وہ ہمہ وقت زمین سے گویا اگ رہا ہوتا ہے۔ کلچر اس کی تراش خراش کرکے اسے نکھارتا اور سنوارتا تو ہے لیکن جیسے ہی کلچر کا زور ٹوٹتا ہے اور وہ تہذیب کی کھائیوں میں چلنے لگتا ہے تو نیچر دوبارہ منہ زور ہوجاتا ہے۔


تہذیب اور ثقافت ایک ہی سکے کے دورخ ہیں۔ ثقافت تخلیقی رخ ہے اور تہذیب تقلیدی رخ۔ ثقافت فنون لطیفہ، سائنس کی دریافتوں اورایجادات کے علاوہ عام زندگی میں اپج، تنوع اور روحانی یافت کی صورت میں اپنی جھلک دکھاتی ہے مگر تہذیب مزاجاً رجحان نقل کی تابع ہے۔ ماڈل کے مطابق مصنوعات تیار کرنا اس کا وظیفہ حیات ہے۔


کلچر غیب سے آتا ہے اور کچھ پتہ نہیں کہ وہ کب آئے گا اور کب تک اس کی تازہ کاری باقی رہے گی۔ تاہم جب وہ آتا ہے توزودیا بدیر تہذیب میں ڈھل کر پورے معاشرے میں پھیل جاتا ہے۔ کلچر یا ثقافت کا عمل شگفتنِ گل سے مشابہ ہے، جو محض چند لمحوں کا معاملہ ہے مگرجس کی خوشبو یعنی تہذیب تادیر پورے معاشرے کو معطر کیے رکھتی ہے۔ ثقافت پھول کے کھلنے کا نام ہے اور تہذیب پھول کی خوشبو میں شرابور ہونے کا۔ مگرجیسے جیسے وقت گزرتا ہے، پھول کی خوشبو رقیق ہوکر بے اثر ہونے لگتی ہے۔ یہ وہ زمانہ ہوتا ہے جب تہذیب، رسوم ورواج اور روایات و عادات میں اسیر ہوکر معاشرتی کھائیوں میں چلنے کے باعث کلچر کی داخلی قوت سے محروم ہونے لگتی ہے۔ یہ گویا دوبارہ دائرے میں مقید ہونے کا عمل ہے تا آنکہ ثقافت یا کلچر کی ایک تازہ موج اسے دائرے کی قید سے ایک بارپھر آزاد کرتی ہے۔


نیچر دائرہ صفت ہے مگرکلچر اس قوس سے مشابہ ہے جودائرے کے محیط سے باہر نکل کر تہذیب کو جنم دیتی ہے۔ کلچر کے بطن سے تہذیب کا جنم اصلاً کلچر کا نقطہ عروج ہے۔ مگرکچھ ہی عرصہ کے بعد قوس دائرہ میں ڈھل جاتی ہے۔ یہ کلچر کا نقطہ زوال ہے۔ وہ معاشرے جو کلچر کے اس نقطہ زوال پر رک جاتے ہیں یعنی تہذیب کے یکسر تابع ہوجاتے ہیں، ان کی تازہ کاری بری طرح متاثر ہوتی ہے مگر جو معاشرے کلچر کی نت نئی موجوں سے آشنا ہوتے رہتے ہیں، ان کی نشوونما میں کوئی چیز رخنہ انداز نہیں ہوتی۔ نیچر اصلاً قربت، پیوستگی یا Contiguity کا دوسرا نام ہے جبکہ کلچر استعارے کی طرح جست بھرنے کا عادی ہے۔ وہ معاشرے جو جست بھرنے کے عمل کو پھول جاتے ہیں، قربت اور پیوستگی کی زد میں آکر گنجان، بے سمت اور جمودآشنا ہوجاتے ہیں۔ دوسری طرف وہ معاشرے جو استعارے کی طرح متحرک ہیں، تاریخ کو جنم دیتے اور عادت، تکرار اور Dogmaکی حدود کو پار کرجاتے ہیں۔


جہاں ثقافت، فطرت یا نیچر کی تہذیب کرتی ہے، وہاں ادب انسانی خدمات کی تہذیب کرتا ہے۔ انسان کی ذات میں بھی ایک جنگل آباد ہے۔ ادب، جذبات کے اس جنگل کی تقلیب کرتا ہے۔ ادب میں داخل ہوتے ہی جذبات کے پرنکل آتے ہیں اور وہ متخیلہ کی صورت پرواز کرنے لگتے ہیں۔ اس سے جذبات کے تشنج اور گرانباری میں کمی آتی ہے۔ خودشاعری کے تدریجی ارتقا پر ایک نظر ڈالیں تومحسوس ہوگا کہ وہ بت پرستی اور سراپا نگاری کے مراحل کو عبور کرکے تخیل آفرینی اور فکری پرواز کی طرف ہمیشہ سے مائل رہی ہے۔ یعنی گیت کی فضا سے نکل کر غزل اور نظم کے دیار میں داخل ہوتی رہی ہے۔ گیت بت پرستی اور سراپا نگاری کا عمل ہے جس میں جذبہ ابھی سبک بار نہیں ہوا مگر غزل اور نظم میں متخیلہ کی کارفرمائی سے جذبے کی تہذیب کا عمل سامنے آنے لگتا ہے۔


ثقافت جب تہذیب میں ڈھلتی ہے توکچھ عرصے کے لیے بہار کا سا سماں ہوتا ہے مگر پھر آہستہ آہستہ وہ روایات، کوڈز اور کنونشنز کی مطیع ہوکر رک جاتی ہے۔ یہی حال ادب کا ہے۔ ادب جب رومانی تحریک کی زد میں آتا ہے تو پرانے لبادے کو ادھیڑ ڈالتا ہے۔ ہر طرف ٹوٹ پھوٹ کا منظر ابھر آتا ہے جس پر بہت سی بھنویں تن جاتی ہیں۔ مگرپھر رومانی تحریک کے اندر سے کلاسیکی تحریک جنم لیتی ہے جو ادب کو ایک نیا لباس مہیا کردیتی ہے۔ وہ مقام جو رومانی اورکلاسیکی تحریکوں کا سنگم ہے، ادب کی نشانۃ ثانیہ کہلانے کا مستحق ہے کہ اس مقام پر بہترین ادب وجود میں آتا ہے۔ مگر پھر آہستہ آہستہ کلاسیکیت کی جکڑ مضبوط ہونے لگتی ہے۔ قواعد و ضوابط، روایات اور بندھن، سانچے اور حلیے متبرک قرار پاتے ہیں اورادب کا سانس رکنے لگتا ہے۔


یہ وہ زمانہ ہے جب ادب بنی بنائی لفظی تراکیب، پٹی ہوئی اور پا مال تشبیہوں اور ’نشان‘ کی سطح پر رکی ہوئی علامات کی زد میں آکر ایک دائرے میں سفرکرنے لگتا ہے۔ اس زمانے کو ’’کلیشے کا دور‘‘ بھی کہہ سکتے ہیں جس میں اسلوب کے علاوہ متن میں بھی تکرار کے شواہد ملتے ہیں۔ ہزار بار دہرائی ہوئی باتیں جواپنی تازگی، انفرادیت اور تنوع سے دست کش ہوچکی ہوتی ہیں، ادب میں سجاوٹ اور آزمائش کے لیے استعمال ہونے لگتی ہیں۔ نکتہ آفرینی اور خیال انگیزی کے بجائے جملہ سازی اورلطیفہ گوئی کو فروغ ملتا ہے۔


ثقافت اور ادب، دونوں کا تفاعل ایک جیسا ہے۔ دونوں کے پیٹرن اور ساخت میں بھی مماثلت ہے۔ دونوں غیب سے آتے ہیں، اپنی خوشبو پھیلاتے ہیں اورجب خوشبو رقیق ہوجاتی ہے تواز سرنو غیب سے نمودار ہوکر ادب اورمعاشرے کو تازہ خوشبو عطا کر دیتے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا جمہوریت کاتفاعل اور پیٹرن بھی ثقافت اور ادب جیسا ہے یا ان سے مختلف ہے؟


جس طرح جنگل حیوانی قوت یا Brute Force کے علاوہ بے پناہ قوت نمو کا بھی منبع ہے اورجس طرح ادب کے عقب میں جذبات کا لاوا ہمہ وقت ابل رہا ہوتا ہے، اسی طرح سوسائٹی کی تحویل میں بھی ایک اجتماعی قوت ہمیشہ ہوتی ہے جو قابو سے باہر ہونے کی صورت میں جنگ وجدل، توڑپھوڑ اور انسانی قدروں کے انہدام میں صرف ہوتی ہے اور قابو میں ہونے کی صورت میں بادشاہ یا آمر میں مرتکز ہوجاتی ہے۔ پوری انسانی تاریخ میں سوسائٹی کی قوت کے مرتکز ہونے یا بے قابو ہونے کے واقعات بھرے پڑے ہیں۔ ہلاکو اور چنگیزخان سے لے کر ہٹلر اور اسٹالن تک اس قوت کے ارتکاز ہی کے نمونے ہیں۔


اسی طرح انقلاب فرانس اور انقلاب روس سے لے کر برصغیر کے فسادات تک قوت کے بے قابو ہونے کی مثالیں ہیں۔ جمہوریت کا امتیاز یہ ہے کہ وہ معاشرتی قوت کو نہ تومرتکز ہونے کی اجازت دیتی ہے اورنہ بے قابو ہونے کی۔ وہ اس زبردرست قوت کی اسی طرح تہذیب کرتی ہے جیسے ثقافت ’’فطرت کی قوت‘‘ کی اور ادب ’’جذبات کی قوت‘‘ کی تہذیب کرتا ہے۔


آمریت یا بادشاہت میں ’’فرد‘‘ ناپید ہوتا ہے۔ ہر طرف ٹائپ ہی ٹائپ دکھائی دیتے ہیں جو بندگی اور اطاعت کی طلائی زنجیروں میں جکڑے ہوتے ہیں۔ لیکن جمہوریت جب معاشرتی قوت کی تقلیب کرکے اسے لوگوں میں تقسیم کرتی ہے تو ’’فرد‘‘ ابھرنے لگتے ہیں جو معاشرے میں ایک نئی روح پھونک دیتے ہیں۔ معاشرتی عدل، شفافیت، برداشت اور رواداری کے وہ مفاہیم جو آمریت اور بادشاہت کے ادوار میں مدھم پڑ جاتے ہیں، اب ایک نئی چکا چوند کا مظاہرہ کرنے لگتے ہیں مگر ثقافت اور ادب کی طرح جمہوریت بھی وقفے وقفے ہی سے طلوع ہوتی ہے اور درمیانی عرصہ میں ان ہی کی طرح دائرے کے تابع ہوجانے کے باعث رسمی اور آرائشی بن کر رہ جاتی ہے۔


وہ زمانہ جب جمہوریت، تازہ کاری سے محروم ہوکر محض رسوم اور کنونشنز کی مطیع ہوتی ہے، بڑے کرب کا زمانہ ہوتا ہے۔ اس میں معاشرتی عدل عنقا، شفافیت معدوم اور رواداری ناپید ہوجاتی ہے اور جنگل کا قانون انسانی قوانین کا منہ چڑانے لگتا ہے۔ ایسے میں اگر جمہوریت کی ایک تازہ موج آکر جمہوری اداروں کو ازسر نو فعال نہ بنائے اور قوت کی تقسیم معاشرتی انصاف کے مطابق نہ کرے تومعاشرے کی نشوونما رک جاتی ہے۔


آخر میں اس بات کا اعادہ مقصود ہے کہ ثقافت اور ادب کی طرح جمہوریت کی تازہ موجوں کی آمد بھی معاشرے کی صحت اور نشوونما کے لیے ضروری ہے ورنہ زمین کی بالائی سطح پر تو کاشت کاری کا عمل دکھائی دیتا ہے مگر سطح کے نیچے جنگل زمین کے شگافوں سے نکل کر کاشت کاری کے عمل کو تہہ وبالا کرنے کے لیے ہمہ وقت مستعد رہتا ہے۔ بس آنکھ جھپکنے کی دیر ہے اورجملہ ثقافتی قدریں نیچر کے خونخوار پنجوں سے تار تار ہوسکتی ہیں۔


لہٰذا اس بات کی ضرورت ہے کہ ثقافت، ادب اور جمہوریت، تینوں وقفے وقفے سے نشاۃ ثانیہ کا مظاہرہ کرتے رہیں۔ انگلستان میں گھاس کے بڑے بڑے خوبصورت میدان ہیں۔ ایک بار کسی پاکستانی نے گھاس کے ایک خوبصورت میدان کے انگریز رکھوالے سے پوچھا کہ صاحب جی! آپ نے اتنا خوبصورت گھاس کا میدان کیسے ’’تخلیق‘‘ کرلیا؟ توانگریز رکھوالا مسکرایا اور بولا کہ برادر! یہ کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ آپ زمین کا کوئی ٹکڑا منتخب کرلیں، اسے اچھی طرح ہموار کریں، پھر اس پر کوئی عمدہ ہی سی گھاس لگائیں۔ اس کے بعدپانی دیں۔ جب گھاس ذرا بڑی ہوجائے تو اسے کاٹیں، پھر پانی دیں، پھر گھاس کاٹیں، پھر پانی دیں، پھر گھاس کاٹیں اور یہ کام تین سو سال تک کرتے رہیں توآپ کے ہاں بھی ایسے ہی گھاس کے خوبصورت میدان نمودار ہوجائیں گے۔


جمہوریت کا عمل بھی وقفے وقفے سے گھاس کی تراش خراش ہی کا عمل ہے مگرہم میں سے کتنے لوگ ہیں جنہیں اس بات کا احساس ہے؟