سلام اس پر اگر ایسا کوئی فن کار ہو جائے

سلام اس پر اگر ایسا کوئی فن کار ہو جائے
سیاہی خون بن جائے قلم تلوار ہو جائے


زمانے سے کہو کچھ صاعقہ رفتار ہو جائے
ہمارے ساتھ چلنے کے لیے تیار ہو جائے


زمانے کو تمنا ہے ترا دیدار کرنے کی
مجھے یہ فکر ہے مجھ کو مرا دیدار ہو جائے


وہ زلفیں سانپ ہیں بے شک اگر زنجیر بن جائیں
محبت زہر ہے بے شک اگر آزار ہو جائے


محبت سے تمہیں سرکار کہتے ہیں وگرنہ ہم
نگاہیں ڈال دیں جس پر وہی سرکار ہو جائے