سحر اور شام سے کچھ یوں گزرتا جا رہا ہوں میں
سحر اور شام سے کچھ یوں گزرتا جا رہا ہوں میں
کہ جیتا جا رہا ہوں اور مرتا جا رہا ہوں میں
تمنائے محال دل کو جزو زندگی کر کے
فسانہ زیست کا پیچیدہ کرتا جا رہا ہوں میں
گل رنگیں یہ کہتا ہے کہ کھلنا حسن کھونا ہے
مگر غنچہ سمجھتا ہے نکھرتا جا رہا ہوں میں
مرا دل بھی عجب اک ساغر ذوق تمنا ہے
کہ ہے خالی کا خالی اور بھرتا جا رہا ہوں میں
کہاں تک ارتباط جان و جاناں کا تعلق ہے
سنورتے جا رہے ہیں وہ سنورتا جا رہا ہوں میں
جوانی جا رہی ہے اور میں محو تماشا ہوں
اڑی جاتی ہے منزل اور ٹھہرتا جا رہا ہوں میں
بہت اونچا اڑا لیکن اب اس اوج تخیل سے
کسی دنیائے رنگیں میں اترتا جا رہا ہوں میں
نشورؔ آخر کہاں تک فکر دنیا دل دکھائے گی
غم ہستی کو ذوق شعر کرتا جا رہا ہوں میں