ساز ہاتھوں میں اٹھاؤ تو غزل پیش کروں
ساز ہاتھوں میں اٹھاؤ تو غزل پیش کروں
تم نظر مجھ سے ملاؤ تو غزل پیش کروں
یہ ہے پیغام محبت اسے چھپ کر نہ سنو
تم مرے سامنے آؤ تو غزل پیش کروں
دور ہی دور جلاؤ نہ محبت کے چراغ
روشنی بن کے تم آؤ تو غزل پیش کروں
تنہا تنہا سی نظر آتی ہے دنیا میری
تم مرے پاس جو آؤ تو غزل پیش کروں
بارہا تم نے ستایا ہے مجھے رات اور دن
مجھ کو اتنا نہ ستاؤ تو غزل پیش کروں
ہم ہیں وہ عشق کے پنچھی جو غزل کہتے ہیں
تم غزل مجھ کو سناؤ تو غزل پیش کروں
تم کو چاہا ہے تہ دل سے یقیناً ہم نے
تم مرے دل میں سماؤ تو غزل پیش کروں
جھوٹے وعدوں سے تسلی نہیں ملتی ہے ترونؔ
سچا آئینہ دکھاؤ تو غزل پیش کروں