سایہ قدم قدم پہ ہے ہر روشنی کے ساتھ
سایہ قدم قدم پہ ہے ہر روشنی کے ساتھ
صبحیں چھپی ہیں پردے میں ہر تیرگی کے ساتھ
آسان کر دی تیرے تصور نے منزلیں
گزرے رہ حیات سے ہم بے خودی کے ساتھ
سجدے دل و نظر کے تو ہر جا بکھر گئے
دیر و حرم کا کام ہی کیا بندگی کے ساتھ
اک درد تھا کہ بزم سے لے کر تیری چلے
دل یاں کہ واں لٹا کے چلے ہم خوشی کے ساتھ
تیری نگاہ ناز کے قربان جائیے
لپکا ہے دل میں شعلہ مگر دل کشی کے ساتھ
تیری طلب میں دار و رسن سے گزر گئے
کھیلا ہے ہم نے کھیل کوئی زندگی کے ساتھ
ساغر میں اپنی آنکھوں کی مستی بھی گھول دے
مے بھی دو آتشاں ہو تری دلبری کے ساتھ
فتنے سے کم نہیں ہے بگڑنا ترا مگر
نکھرا ہے حسن اور بھی کچھ برہمی کے ساتھ
اپنا بنا کے یوں مجھے چھوڑا ہے راہ میں
دو گام جیسے کوئی چلے اجنبی کے ساتھ
اے شکوہ سنج تیرا ہی دامن نہیں وسیع
کیا نعمتیں حبیبؔ ملیں زندگی کے ساتھ