ساری رات

دوسرا گلاس بھی خالی تھا۔ میرا گلاس، جوپہلا گلاس نہیں تھا، خالی ہو رہا تھا۔ میں نے دوسرے گلاس کو بھی بھر دیا اور انتظار کرنے لگا۔ اس کا جس کے آنے کا انتظار تھا۔ اس کا جس نے آنے کا وعدہ نہیں کیا تھا۔


چھت پر چاندنی سو رہی تھی۔ ہوا جاگ رہی تھی اور رات کا دل دھڑکا رہی تھی کبھی کبھی رات گہری سانس لیتی تھی اور خاموش ہو جاتی تھی۔ میں خاموش نہیں تھا میں بول رہا تھا لیکن کوئی میری آواز سن نہیں رہا تھا۔ خالی گلاس، جس کو میں نے چند لمحے پہلے بھر دیا تھا اب بھی خالی خالی آنکھوں سے مجھے گھورے جارہا تھا۔ چاند میرے گلاس میں اتر آیا تھا اور آہستہ آہستہ پگھل رہا تھا۔


’’بہت انتظار کرایا تم نے۔ تمہار ا جام کب سے بھراہوا ہے۔ رات بیت رہی ہے۔ پیو نہ پیو جتنی رات اب باقی ہے، بہت ہے۔‘‘ میں نے کہا، اس سے جس کے آنے کا مجھے انتظار تھا۔ گلاس بھرا ہوا تھا، لیکن مجھے خالی نظر آرہا تھا۔


’’ہاں بہت ہے۔‘‘ اس نے کہا جس کے انتظار میں میں شام سے چھت پر بیٹھاتھا، پی رہا تھا سگریٹ کے کش اڑا رہا تھا۔ تمباکو اور وہسکی کی خوشبو میری روح میں بسی ہوئی تھی۔


’’تم بہت اکیلے ہو۔‘‘ اس نے کہا جو نہیں آیا تھا۔ اس کے ہونٹ مڑ گئے تھے۔ اس کی آنکھوں میں بھیگی بھیگی چنگاریاں جھلملارہی تھیں۔ ہونٹ اور مڑ گئے اور اس نے میری طر ف جھک کر کہا ’’تم بہت اکیلے ہو۔‘‘


اس کے لہجے میں کتنا کدورت بھرا چٹخارہ تھا۔


مجھے اپنے آپ پر بڑا ترس آیا۔ میں نے اپنے چہرے پر ہاتھ پھیرا۔ چہرہ ٹھنڈا تھا۔ نمی نے چہرے پر جالے سے بن دئیے تھے۔ گلاس کے باہر بھی، میرے چہرے کی طرح نمی کے جالے پگھل رہے تھے۔


یکایک میرا چہرہ گرم ہونے لگا۔ سانس جلنے لگی۔ ’’میں سب کچھ بدل سکتا ہوں۔ اس کے پرخچے اڑا سکتا ہوں جس کا مجھے انتظار ہے۔ میں اس چھت سے کود سکتا ہوں۔ اور نیچے گر سکتا ہوں۔ گر کر کہاں جا سکتا ہوں۔ نیچے پاتال ہے۔ یہ چھت بھی پاتال ہے پاتال سے پاتال میں۔ یہ گرنا بھی کوئی گرنا ہے۔‘‘


اس کے ہونٹ اور مڑ گئے۔ چوٹ کھائے ہوئے جھینگرکی طرح۔ جھینگر بو ل رہے تھے۔ جھینگروں کی آواز سن کر، نیچے اصطبل میں گھوڑے ہنہنانے لگے۔ آواز آواز کو جگاتی ہے۔ خاموشی خاموشی کو تھپکیاں دیتی ہے۔ میں نہ آواز ہوں، نہ خاموشی۔ میں کیا ہوں۔ اس کے ہونٹ پھیل گئے۔ جھینگر غائب ہو گئے۔ اس نے ہنس کر کہا، ’’تم اپنی آواز سے ڈرتے ہو۔‘‘


میں اس کی آواز کو کڑوے گھونٹ کی طرح پی گیا۔


’’پیو پیو، ابھی رات باقی ہے۔‘‘


’’ہاں ابھی رات باقی ہے۔ جام بھی باقی ہے، تم بھی باقی ہو۔‘‘


دوسرے گلاس پر انگلیوں کی گرفت کبھی سخت ہو جاتی تھی کبھی ہلکی۔ کبھی انگلیاں پگھلنے لگتی تھیں، کبھی برف کی طرح جم جاتی تھیں اور ایسا لگتا تھا کہ وہ کانچ کی دیوار بھی پگھل گئی ہے جسے میں گھورے جارہا تھا۔


میں جھکا، میں نے انگلیوں پرہونٹ رکھ دیئے۔ خالی گلاس کتنا سرد تھا۔ ہونٹوں کی طرح۔ اور وہ انگلیاں جن کی گرفت میں گلاس تھا۔ انگلیاں بھی کتنی سرد تھیں۔ برف کی انگلیاں، برف کی آنکھیں، برف کے ہونٹ، برف کا چہرہ، برف کی مسکراہٹ، میں نے خالی گلاس کو پھر شیشے کی میز پر رکھ دیا۔ انگلیوں سمیت جن میں نہ جانے کتنے ڈنک چھپے ہوئے تھے۔ میں نے سارے ڈنک اپنے ہونٹوں میں چھپالیے اور چپ چاپ اپنی کرسی میں سما گیا۔ میں نے ہاتھ بڑھایا، ربڑ کی آستین کی طرح، اور گلاس میں پگھلتے ہوئے چاند کو پی گیا۔ بیٹھے بیٹھے میری آنکھ لگ گئی، پھر جو آنکھ کھلی تو کیا دیکھتا ہوں کہ۔۔۔ وہ سامنے بیٹھا ہے۔ رات کا دھندلکا میری روح سے چھن رہا ہے اور ستاروں کی گرد کی طرف سفر کررہاہے۔ وہ سامنے بیٹھا ہے اور انگلیوں سمیت اس گلاس کو خالی کیے جارہاہے جو شروع سے خالی تھا اور جس پر انگلیوں کی گرفت سخت تھی۔ جس کے سارے ڈنک میں نے اپنے ہونٹوں میں چھپا لیے تھے۔


بینک میں ’’ٹوکن‘‘ جس طرح ایک کے اوپر ایک رکھے جاتے ہیں، مینار کی طرح، اسی طرح اس کے اعضاء ہوا میں تیر رہے تھے، لیکن ایک کے اوپر ایک۔ پھن پھیلائے ہوئے سانپ کی طرح، جس کے ہزاروں ٹکڑے ہو گئے ہوں لیکن جس کا ہرٹکڑا زندہ ہو اور ایک کے اوپر ایک، لہرا رہا ہو۔


میں انگلیوں کو چھوتا ہوں، میرے ہونٹ خوشبو کا پیچھا کرتے ہیں۔ ہاتھ کا سفر، بانہوں کا سفر، گردن کا سفر اور۔۔۔ اور۔۔۔ اور۔۔۔ اس سے آگے کچھ نہیں۔ چہرہ، وہ چہرہ، کہیں نہیں ہے۔ میرا چہرہ اور اس کا چہرہ، دونوں غائب ہیں۔ سفر ختم ہوا۔ وہ ہنستی ہے، یہ اس کی ہنسی ہے۔ میں ہنسی کو دیکھتا ہوں۔ آواز جو دکھائی نہیں دیتی، چہرہ بن گئی ہے۔ میں اس آواز کو چومتا ہوں۔ اب ایک سفر اور شروع ہوتا ہے جو چہرے سے آگے جاتا ہے کیونکہ آواز وقت ہے۔ وقت جو وقت سے آگے جاتا ہے۔


گھوڑے ہنہناتے ہیں۔ سارے تانگے والے یہیں رہتے ہیں۔ وہ وہیں رہتے ہیں جہاں گھوڑے ہنہناتے ہیں۔ جہاں گلی کوچوں کا اندھیرا ہے۔ وہ اپنے گھوڑے سے بھی زیادہ تھکے ہوئے ہیں اور بے ہوش ہیں جو اپنے زمانے سے آگے نکل جاتے ہیں وہ بے ہوش ہو جاتے ہیں۔ چاہے وہ میں ہوں یا گھوڑے، ایک ہی بات ہے۔


ان جان لیوا انگلیوں نے، جو ہوا سے زیادہ سبک ہیں، گلاس کو چھوڑ دیا ہے۔ انگلیوں سے چھوٹتے ہی گلاس بجھ گیا ہے، چراغ کی طرح۔ ساری رات چاند بجھارہا ہے۔ ساری رات۔


اب کیا ہوگا۔ تم نے گلاس چھوڑدیا ہے۔ گلا س کتنا خالی ہے۔ گلاس کی دیوار پر نمی کس طرح پسیج رہی ہے۔ اور تم کتنی بے لباس ہو۔ سچائی کی طرح۔ مجھے اپنے جرم کا اقرار ہے۔ مجھے لباس سے زیادہ تم پسند ہو۔ بے لباس سچائی۔ سچائی نڈر ہے۔ اسی لیے تم اتنی خوبصورت ہو۔


ساری کھڑکیاں دور دور تک اندھی آنکھوں کی طرح نظر آرہی ہیں۔ کمروں کی آنکھیں باہر دیکھتی ہیں۔ میں ان آنکھوں کے اندر دیکھنا چاہتا ہوں۔ وہاں کیا ہو رہا ہے۔ ان کمروں کے اندر۔ ایک کمرے وہ ہیں۔ ایک کمرہ میں ہوں۔ تم اس کمرے میں کتنی اکیلی ہو۔ مجھے تمہارا یہ اکیلا پن بہت اچھا لگتا ہے۔ کھویا ہوا چہرہ، کھوئی ہوئی بانہیں، کھوئی ہوئی باتیں۔ ایک کمرہ تم ہو۔ میں اس کمرے میں کتنا اکیلا ہوں۔ ہر طرف گھٹن ہے۔ ساری کھڑکیاں بند ہیں۔ اور میں تمہارا انتظار کررہاہوں۔ تم کسی طرح آ نہیں سکتیں۔ نہ جانے کیا قصہ ہے۔


رات گرد کی طرح اڑ رہی ہے، سورج کی طرف۔


یہ سب محض خیال ہے۔ باتیں۔ ان ہی باتوں نے مجھے وہاں تک پہنچایا ہے۔ اس چھت تک جس کے نیچے اصطبل ہے، جہاں گھوڑے ہنہنارہے ہیں۔ تھکے ہوئے گھوڑے۔


میں بھی تھک گیا ہوں۔


تم پھر آگئے۔ یہ بھی کوئی آنے کا وقت ہے۔ وقت، کیسا وقت۔ تم نے بلایا، میں آگیا۔ اچھا چھوڑو یہ باتیں۔ تم اب جاؤ۔ میں اس وقت اکیلا رہنا چاہتا ہوں۔ لیکن تم اکیلے کب ہو۔ وہ کون ہے۔ وہ کوئی نہیں۔ یہاں اور کوئی نہیں ہے۔ میں بھی نہیں، تم بھی نہیں، لیکن یہاں کوئی تو ہے۔ دوسرے گلاس پر انگلیوں کے نشان کیسے ہیں۔


وہ نتھنے پھلا کر انگلیوں کو سونگھتا ہے۔ گلاس کی دیوار پر نشان جاگتے ہیں۔ آہستہ آہستہ انگلیوں میں خون دوڑ رہا ہے۔ اس کا جسم تن گیا ہے۔ اس کی زبان نکل آئی ہے۔ اس کی دم سخت ہو گئی ہے۔ لوہے کی دم۔ وہ گلاس کو سونگھتا ہے اور چھت کو پنجوں سے کریدتا ہے۔ اس کے پنجے بھی لوہے کے ہیں۔ اس کی آنکھیں انگاروں کی طرح دہک رہی ہیں۔ اس کے منہ سے، زبان سے، جھاگ ٹپک رہا ہے۔ پوری چھت پر جھاگ ہے۔ میں چلتا ہوں۔ جھاگ پر پھسلتا ہوں، اور گرتا ہوں۔ اٹھتا ہوں اور کرسی پر بیٹھ جاتا ہوں۔ وہ بھونکتا ہے۔ گلاس کو سونگھتا ہے۔ دم ہلاتا ہے اور باہر چلا جاتا ہے۔


میرادل دھک دھک دھک دھک کررہاہے۔ اچھی مشین ہے یہ دل۔ غریب دل۔ رفریجریٹر کی طرح کام کیے جاتا ہے۔ مشین کا موٹر گرم اور چیزیں ٹھنڈی۔


تم میرے پاس آؤ۔ چہرہ نہیں ہے تو نہ سہی۔ تم تو ہو۔ تم اور تم اور تم۔ یہ سارے سال، مہینے، دن، کتنے میلے، کتنے شکن آلود ہیں۔ ڈالو ان کو ردی کی ٹوکری میں۔


اس وقت ساری باتیں یاد آرہی ہیں۔ یادیں ستاروں کی طرح جھلملاتی رہتی ہیں۔ رات بھر ہم بھی ان کے ساتھ جھلملاتے رہتے ہیں، رات بھر۔


تم نے ایک بار مجھ سے کہا تھا۔۔۔ شاید وہ تمہاری زندگی کا سب سے کمزور لمحہ تھا۔۔۔ کیا کہا تھا میں نے۔ تم نے کہا تھا میں بہت انوکھا انسان ہوں۔ میں نے پوچھا تھا۔۔ کیوں ؟ تم نے ہنس کر کہاتھا۔۔۔ تم بہت شریف آدمی ہو۔ اور اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ تھا کہ میں نے ساری رات باتوں میں کاٹ دی تھی۔ ہاں مجھے یہ سمجھنے میں بہت دیر لگی کہ راتیں باتیں کرنے کے لیے نہیں ہوتیں۔


تم بہت زور زور سے سانس لے رہی ہو۔ منہ پر رومال مت رکھو۔ کھانسی بھلا رومال روکے رکتی ہے۔ تم پیاسی ہو۔ خالی گلاس۔ اور تمہارا چہرہ خالی گلاس میں ہے۔ میرے گلاس میں چاند ہے۔ تمہارے گلاس میں چہرہ ہے۔ چہرے پر وقت نے جھریاں بنا دی ہیں۔ وقت اپنے چہرے پر جھریاں بنتا رہتا ہے۔ وقت خالی گلاس میں ہے۔ وقت کو اسی طرح پہچانا جاتاہے۔ ہر شخص وقت کو اپنے گلاس میں انڈیل کر پی جاتا ہے۔ آنکھوں میں کتنا کاجل بھر لیا ہے تم نے۔ ہونٹوں کو لپ اسٹک نے کتنا پھیکا بنا دیا ہے۔ ہاتھوں پر رگیں جونکوں کی طرح رینگ رہی ہیں۔ تمہارے دانت کتنے میلے ہو گئے ہیں۔ وقت کی طرح۔۔۔ جس میں ہم زندہ رہے، جوہم سے چھو کر میلا ہو گیا۔ ہم وقت کو اپنی زندگی کے اس میل کے سوا اور کچھ نہ دے سکے۔ رات کا چل چلائو ہے۔ وقت کم ہے۔ تمہارے گلاس میں بھی جو خالی ہورہا ہے۔ میرے گلاس میں بھی جو خالی ہو رہا ہے۔ اب تم آئی ہو تو بھلا کیا آئی ہو۔


تم گلاس کے اندر سے مجھے دیکھ رہی ہو۔ کاجل بھری آنکھوں سے، اور تمہارے چہرے کی جھریاں جالے کی طرح اڑ رہی ہیں اور تمہاری آنکھوں پر جھول رہی ہیں۔


ہاں سب ٹھیک ہے۔ بینک کی نوکری، معاشقے، فلم دیکھنے کے لیے ملاقاتیں۔ میزوں کے نیچے پیروں اور گھٹنوں کا ملاپ، کافی کے ساتھ، وہسکی کے ساتھ، موٹی موٹی گالیاں، دھکم پیل زندگی اس ریلے میں بہتی ہوئی اس چھت تک پہنچ گئی ہے۔ کتنی رشوتیں، کتنی بے ایمانیاں، کتنی چغلیاں۔ سب لباسوں میں چھپی ہوئی، تمہاری جھریوں کی طرح جس کو وقت نے تمہارے چہرے میں چھپا دیا تھا او ر جن کو وقت ہی نے ابھار کر چہرے پر پھیلا دیا ہے۔ اب جھریوں کے سوا ا ور کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ چہرہ کہیں کھوگیا ہے۔ تمہارا بھی اور میرا بھی۔ سارا غازہ، سارے رنگ، ساری خوشبو۔۔۔ سب کچھ چہرے کے ساتھ کھوگیا ہے۔ اب چہرے کی تلاش بیکار ہے۔


گلاس میں پڑا ہوا چہرہ خوشی میں چیختا ہے۔ جھریاں کانپتی ہیں۔ میری آنکھیں جل رہی ہیں کان جل رہے ہیں۔ گلا خشک ہوا جارہا ہے۔ میں انگارے چبا رہا ہوں۔


اتنی بڑی، اتنی لمبی زندگی، اتنا چھوٹا سا چہرہ، اتنا چھوٹا سا گلا س اور اتنا خوفناک قہقہہ۔


میں نے دوسرا گلاس اٹھالیا۔ ایک ہی چوٹ سے گلاس کا سرٹوٹ گیا۔ ٹوٹا ہوا کنارا دانتوں کی طرح چمکنے لگا۔ میں نے چاروں طرف دیکھا۔ دانت پیس کر ٹوٹے کنارے کو اپنی کلائی پر رکھا دانت گوشت میں چبھے۔ میں نے گلاس گھما دیا۔ کلائی ادھڑ کر رہ گئی۔ میں نے گرم پھواروں کو گلاس پر، میز پر، چھت پر گرتے دیکھا۔ گرم پھواریں، جن کا کوئی رنگ نہیں تھا، میری رگوں سے پھوٹی تھیں۔ میں نے چاروں طرف دیکھا۔ چھت ویران تھی۔ آسمان کی طرح جن پر ستارے بجھ رہے تھے۔ دیکھتے دیکھتے ستاروں کی گرد نے مجھے گھیر لیا۔


گلاس کے ٹوٹ جانے کا مجھے افسوس ہے جس میں تمہارا چہرہ ڈوب گیا تھا۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ تم کہیں ہو اور مجھے دیکھ رہی ہو۔ اور میں صرف اس لیے مسکرا رہا ہوں کہ میں تمہاری آنکھوں کے سفر سے ڈرتا ہوں۔ میری مسکراہٹ تمہاری آنکھوں کاراستہ روکے کھڑی ہے اب تمہاری آنکھیں مسکراہٹ کے سوا کچھ نہیں دیکھ سکتیں۔


میں گلاس اٹھاتا ہوں اور منہ سے لگاتا ہوں۔ میرا ہاتھ کانپ رہا ہے۔ اب یہ گلاس بھی خالی ہے۔