ساقی و واعظ میں ضد ہے بادہ کش چکر میں ہے

ساقی و واعظ میں ضد ہے بادہ کش چکر میں ہے
تو بہ لب پر اور لب ڈوبا ہوا ساغر میں ہے


روک لے اے ضبط جو آنسو کہ چشم تر میں ہے
کچھ نہیں بگڑا ہے اب تک گھر کی دولت گھر میں ہے


دب گیا تھا میرے مرنے سے جو اے محشر خرام
کیا وہی خوابیدہ فتنہ صورت محشر میں ہے


جس کو تو چاہے جلا دے جس کو چاہے مار دے
وہ بھی تیری بات میں یہ بھی تری ٹھوکر میں ہے


دل کے مٹ جانے سے جوش عشق گھٹ سکتا ہے کیا
دل سے کیا مطلب کہ یہ سودا تو میرے سر میں ہے


مانتا ہے آستاں کو تیرے کعبہ اور کون
یہ ہمارا ہی نشان سجدہ سنگ در میں ہے


احسنؔ آوارہ قسمت کی نہ پوچھو گردشیں
اپنے گھر بیٹھا ہوا تقدیر کے چکر میں ہے