سامری

دنیا کی سب سے اونچی چوٹی ہمالیہ پر پہلے انسانی قدم ہیلری کے پڑے تھے۔ اس مرد آہن نے دنیا کی سب سے اونچی چوٹی پر جو پہلا جھنڈا لہرایا تھا ، امن کا وہ جھنڈا تھا جس کو سفید کبوتروں کا جھنڈ چھوتے ہوئے فضاؤں میں اونچی اڑان بھرتے ہوئے نظروں سے اوجھل ہوگیا۔ اس عظیم چوٹی پر ہیلری کے ساتھی ٹین زنگ نے اپنی بانہوں کو فضاؤں میں پھیلایا اور اس کو یوں لگا کہ اس نے اپنے اندر ساری دنیا کو جذب کرلیا۔
پون صدی پہلے شہر آسٹریامیں ایک ایسے بچے کی پیدائش ہوئی جو دنیا کا چہرہ بدلنے والا تھا۔ اس بچے کو اپنے آرین Aryanہونے پر ناز تھا۔ خود کو تمام انسانوں سے بالاتر سمجھتا تھا۔ وہ اپنے سے بڑے بچوں پر دبدبہ بنائے رکھنے کا فن بھی جانتا تھا۔ وہ تیز اور طرار تھا۔ باتیں بنانے میں ماہر تھا۔ باتوں کے جادو میں کسی بھی عمرکے کسی بھی فرد کو شیشے میں اتار لیتا تھا۔ اس لئے بچپن میں ہی اس کے حلقۂ اثر کے بچے اس کو سامری نام سے پکارنے لگے۔
یہ نیا سامری ان سے مخاطب ہوکر کہتا ۔ ۔ ۔
’’میں ایک ایسی دنیا ترتیب دینے والا ہوں جہاں یہ عظیم حسب ونسب کا آرین حکمران ہوگا‘‘
وہ اپنے والد کا چوتھا بیٹا تھا۔ اس کا والد اپنے اس چوتھے بیٹے کی غصیلی طبیعت سے پریشان رہتا تھا۔ اس کو ہر وقت یہ فکر لگی رہتی تھی کہ کہیں وہ اس غصیلی طبیعت کے بیٹے کی وجہ سے کسی مصیبت میں گرفتار نہ ہو۔اکثر باپ بیٹے میں توتو میں میں ہوتی۔ کبھی کبھی یہ تو تو میں میں جھگڑے کی صورت اختیار کرتی تھی۔ پھر ایک دن وہ بچہ آسڑیا سے نکل کر جرمنی پہنچ گیا۔
ہیلری نے جب ہمالیہ کی چوٹی پر امن کا جھنڈا لہرایا۔ ہمالیہ سے کئی ہزار میل دور سمندر کو چھوتے ہوئے ایک شہر میں ریڈی پر چائے بیچنے والے کے ہاں چوتھی اولاد پیدا ہوئی۔ افلاس میں ڈوبے ہوئے اس چائے والے نے اپنی اولاد کی پیدائش پر مٹھائی کے چند ٹکڑے بھی نہ بانٹے۔ نوزائید بچے نے روتے ہوئے گھر کو سر پر اٹھایا جیسے وہ اپنی آمد کا اعلان کررہا تھا۔
اس بچے کی آمد کے بعد اس گھر کے مالک کی ریڈی پر چائے بیچنے پر جو تھوڑی بہت آمدنی ہورہی تھی وہ بھی قدرے کم ہوگئی۔ گھر کے افراد افلاس کے ایسے اندھیرے میں ڈوب گئے جہاں روشنی دور دور تک نظر نہیں آرہی تھی۔ نوزائید بچے کو گود میں اٹھانے کے لئے کوئی تیار نہیں تھا۔ سب ہی یک زبان بولتے ۔ ۔ ’’یہ تو منحوس ہے‘‘
لیکن ماں تو ماں ہوتی ہے ۔ وہ اپنے نوزائید بچے کو اپنی سوکھی ہوئی چھاتیوں سے دودھ پلا رہی تھی۔ اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کا دریا بہہ رہا تھا۔ روتے ہوئے ہچکیاں لیتے ہوئے اپنے بیٹے کی پیٹ کو سہلاتے ہوئے کہتی ۔ ۔ ۔
’’سوجاؤ ۔ ۔ راجا بیٹے سوجاؤ‘‘
یہ میلا کچیلا بچہ جیسے جیسے بڑا ہونے لگا تووہ باتوں کا بادشاہ بن گیا ۔ سب کا دل اپنی باتوں سے موہ لیتا تھا۔ والد کی ریڈی سڑک سے اسٹیشن پر پہنچ گئی۔کم سن ہونے کے باوجود چائے کی ریڈی میں اس کی مدد کرتا تھا۔
اب یہ بچہ سولہ سال کا ہوگیا۔ والد کے لئے کل کا میلا کچیلا بچہ قیمتی بن گیا۔ اس لئے وہ شادی کے منڈپ میں نیلام ہوگیا۔ پیسوں کا لین دین ہوا۔ سہاگ رات میںیہ ہکا بکا دولہا بھاگ کھڑا ہوگیا۔ سادھوؤں کی ٹولی کے ساتھ ہمالیہ کی شرن میں آگیا۔ وہ خود کو یا ان ساروں کو اس مغالطے میں رکھنا چاہتا تھا کہ وہ گیانی بن گیا۔ لیکن وہ ایک ایسے جادو کی تلاش میں تھا جو اس کو سامری بنادے۔
میانہ قد کا وہ نوجوان میونکMunichکے تاریخی شہر میں جب پہنچا ، اسے یوں لگا اس شہر کی بھول بھلیوں میں وہ کھوجائے گا۔ لیکن اس کو بہت جلد احساس ہوا کہ زندگی میں اگر مجھے اوپر آنا ہے تو مجھے اپنے آپ کو ان بھول بھلیوں کے حوالے نہیں کرنا ہے۔اس کو زندگی شروع کرنے کے لئے ایک ضابطے کے تحت کام کرنا ہوگا۔ وہ فوج میں شامل ہوگیا۔ فوجی ٹریننگ کے دوران وہ ڈاکیہ کاکام کرتا رہا جس کو اس نے بخوبی انجام دیا۔ وہ قابل تعریف بن گیا۔ بڑے سے بڑا افسر اس کی ذہانت اور قابلیت کے قائل ہوگئے۔ لیکن اس کا نیا ملک عبرت ناک شکست سے دوچار ہوا۔ وہ اس شکست سے اتنا بد دل ہوگیاکہ اس نے فوج سے علیحدگی اختیار کی ۔ پھر وہ سڑک پر آگیا۔ ہزاروں لوگوں کے ساتھ مظاہروں میں شامل ہوگیا۔
پھر ایک دن خود کو اس نے لوگوں کے ایک بڑے ہجوم سے خطاب کرتے ہوئے پایا۔ اس نے تقریر کرتے ہوئے اپنی نئی قوم کی شان وشوکت اور وحدت کے قصیدے پڑھے ۔ لوگوں کا وہ ہجوم اس قدر اس کا گرویدہ ہوگیاکہ سب ایک ساتھ بول پڑے ۔ ۔
’’قوم کا لیڈر کیسا ہو ؟ سامری جیسا ہو، ۔ ۔ سامری ۔ ۔ سامری ۔ ۔ سامری‘‘
وہ ایک ایسا سامری بنا جس نے ساری قوم کو اپنے جادو سے باندھ لیا۔
ہمالیہ کے دامن میں سادھوؤں کے ٹولے کے ساتھ آیا ہوا وہ سترہ سالہ لڑکا اپنے بُنے ہوئے الجھنوں کے جال سے آزاد نہیں ہورہا تھا۔وہ اپنے الجھنوں سے اس قدر پریشان تھا کہ اس کی آنکھوں سے آنسوگنگا جمنا بن کر بہنے لگے۔ پھر ایک دن سادھوؤں کی ٹولی میں ایک بوڑھا سادھو اس کے سامنے کھڑا ہوا۔ اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولا ؛
’’اٹھ ۔ ۔ کھڑا ہو ۔ ۔ روتے نہیں‘‘
پھر اس نے اپنے کندھے سے اپنا زعفرانی گچھا اس کے کندھوں پر سجایا۔ اس کے آنسوؤں کو پونچھتے ہوئے بولا ؛
’’جا ۔ ۔ واپس جا‘‘
انیس سالہ وہ لڑکا ایک نئے شہر میں چلا گیا۔ وہ شہر بھی سمندر کو چھوتا تھا۔ لیکن اس شہر کی رونق آسمان کو چھورہی تھی۔ اس شہر کے اندر ایک اور شہر بسا ہوا تھا۔ وہیں اس کو اس کی پناہ گاہ ملی ۔ اس پناہ گاہ میں اس کی زندگی کا راستہ مقرر ہوا۔ وہیں اس کو سامری بننے کا پہلا سبق ملا۔
وقت کے حکمرانوں نے جب اس درمیانہ قدکے خوبصورت نوجوان کی بڑھتی ہوئی عوامی مقبولیت دیکھی تو انہوں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ۔ وہ درمیانہ قد کا خوبصورت آدمی ایک ایسا نازی بنا جس نے حکمرانوں کے ایوانوں کو قہر رجال سے نیست ونابود کردیا۔
اس نے اپنی قوم کو یہ یقین دلایا کہ وہ ان کی کھوئی ہوئی عزت نفس واپس دلائے گا ۔ وہ بولا ۔ ۔
’’اب وقت آگیا ہے ، یہ قوم تمام دنیا پر حکومت کرے گی۔ اب ہمیں اس سے کوئی نہیں روک سکتا۔ ہمارے حکمرانوں نے ہمیں جس شکست سے دوچار کرایا وہ شکست قصہ پارینہ بنے گی۔ آپ مجھے چن لیجئے، میں آپ کے قدموں پہ دنیا کو جھکادوں گا‘‘
میانہ قد کا خوبصورت آدمی ایک ایسا سامری تھا جس کا جادو عوام کے سرچڑھ کے بولا۔ کل کا ریڈی پر چائے بیچنے والا تعلیم یافتہ ہوگیا۔ وقت نے اس کو وہاں پہنچادیا جہاں صرف دوسرے تصور کرسکتے ہیں۔
وہ ایک مخصوص سوچ کا تابع دار بن گیا۔ زندگی کے ہر مسئلے کو سوچ کی کسوٹی پر پرکھنے لگا۔ اس کے بولنے کا انداز بدل گیا۔ وہ جب بولتا ، یوں لگتا پھول جھڑتا ہے۔ مخصوص سوچ کے لوگوں کو لگا کہ ان کو ان کا مسیحا مل گیا۔ ایسا مسیحا جس کی ان کو صدیوں سے تلاش تھی۔ وہ ایک دوسرے سے بولتے ؛
’’یہی سوچ ہماری قوم کو سب قوموں سے آگے لے جائے گی‘‘
اس لئے وہ اہم تنظیم کا اہم کارکن بن گیا۔ وہ قسمت کا دھنی تھا۔ عمر رسیدہ لوگ بھی اس کے سامنے سرجھکائے کھڑے رہنے لگے۔ ہر کامیابی کے بعد اس کا قد بڑھتا گیا۔ مورخین تاریخ کے اوراق سے اس جیسا ثانی نہ پاسکے۔ وہ لوگوں کو یقین دلاتا ۔ ۔
’’ صدیوں سے آپ لوگوں نے جو رتبہ کھویاہے ، وہ میں آپ لوگوں کو واپس دلاؤں گا‘‘
وہ مزید بولا ۔ ۔
’’آپ میرے ساتھ ساتھ چلو۔ آپ نے جو صرف تصور کیا ہو ، اس خواب کو اس تصویر کو میں حقیقت میں بدلنے والا ہوں‘‘
لاکھوں لوگوں کا ہجوم ایک ساتھ کھڑا ہوکر ایک ساتھ بولا ۔ ۔
’’سامری ۔ ۔ سامری ۔ ۔ سامری‘‘
سامری نے سب کو اپنے جادو کے دھاگے میں باندھا۔ سامری کے سامنے ملکوں کے ساتھ کئے گئے وعدے ، دستاویز، ردی کے کاغذ سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے۔ ایسے دستاویز نے ملک کی عزت نفس کو گروی رکھا تھا۔ سامری نے اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا۔ ملک کے بعد ملک فتح کرتا گیا۔ وہ عوام کو اپنی
خوش گفتارآواز میں بولتا تھا ۔ ۔ ۔
’’میں نہ کہتا تھا کہ ہم تمام قوموں پر حکومت کرنے کے لئے پیدا ہوئے۔ ہماری قوم سب سے بلند اور اونچی ہے‘‘
سامری کا سانحہ یہ ہے ۔ یہی اس کی حقیقت بھی ہے کہ وہ صرف جادوگر ہے۔ صرف جادوگر ہے۔ ایک ایسا جادوگر جس کی جان کسی طوطے میں اٹکی ہوئی ہے۔ تکبر اور غرور سامری کو اس حقیقت سے غافل کرتا۔
پھر موسم بدلا۔ ماحول بدلا۔ کل جہاں مہکتے ہوئے پھول تھے، گاتے ہوئے پرندے تھے۔ آج وہاں بارشوں نے کہرام مچا رکھا۔ برف کے ان چاہے پہاڑ کھڑے ہوئے سامری نے کبھی یہ نہ سوچاتھا کہ اس کی جیالہ فوج نے ملک بعد ملک اپنے پاؤں تلے روندھے تھے ۔ وہ فوج برف کی قبر میں دفن ہوگی۔
سامری کا یہ طوطا اس کے قابو میں نہیں آیا۔ وہ جنگ پہ جنگ ہارتا گیا۔ سامری کا طوطا برف میں دب کے رہ گیا۔ اب ہارے ہوئے سامری نے زندگی کو الوداع کہا۔ کیا اس کے پاس کوئی اور راستہ نہ تھا ۔ ۔ ؟
وہ جو خود کو ساری دنیا کا حکمران بننے کا خواب سجائے ہوئے ایک چھوٹے کمرے میں دفن ہوگیا، اب وہ صرف تاریخ کے صفحوں میں گم ہوگیا۔ ایک پوری صدی کے لئے اس کی قوم اپنی شناخت کھوبیٹھی۔
پسماندہ قوم کا ایک نیا سامری ہرتقریر میں سنہرے خوابوں کو حقیقت میں بدلنے کا وعدہ کرتے ہوئے نظر آرہا ہے۔ وہ ان کی سوچ کا مسیحا نظر آرہا ہے۔ سب کے سب اس کے پیچھے چلتے نظر آرہے ہیں۔ ہجوم در ہجوم بلند سے بلند آواز میں کہتے ہیں ۔
’’سامری ۔ ۔ ۔ سامری ۔ ۔ ۔ سامری‘‘
خوبصورت خوابوں کا سوداگر انسانوں کی قربانی دیتا ہے۔ جانوروں کی پرستش کرتا ہے۔
ہم میں چند اب بھی اس انتظار میں ہیں کہ کوئی تو ہوگا جو ہمالیہ کی اونچی چوٹی پر امن کا جھنڈا لہرائے گا اور سفید کبوتروں کا جُھنڈ اس سفید جھنڈے کو چھوتے ہوئے فضاؤں میں اڑان بھرے گا۔