روس، یوکرائن اور یورپ

یوکرائن، مشرقی یورپ میں روس سے ملحقہ تقریباً سوا چار کروڑ کی آبادی والا ملک ہے جو اپنی سٹریٹجک  اہمیت کی وجہ سے  امریکہ کے زیر سایہ نیٹو اور روس کے درمیان ایک بفر سٹیٹ سا بن گیا ہے۔

  روس کچھ نظریاتی اور کچھ سیاسی ، معاشی و  عسکری وجوہات کی بنا پر اسے اپنا حصہ بنانا چاہتا ہے لیکن نیٹو ممالک روس کے  دنیا پر بڑھتے اثر و رسوخ کو روکنے کے لیے یا تو اسے  نیٹو کا ممبر دیکھنا چاہتے ہیں یا یورپی یونین کا۔   لیکن دونوں کی خواہش اب تک اس لیے بارآور نہیں ہو پائی کیوں کہ اگر دونوں طاقتوں میں سے کوئی بھی  ایک اپنی  خواہش کی تکمیل کی کوشش کرتی ہے تو اس سے جنگ کے چھڑ جانے کا خطرہ ہے جو کہ بہت تباہ کن ہو سکتا ہے۔

نیٹو اور روس دونوں طاقتیں جوہری ہتھیاروں سے لیس ہیں اور  دنیا کو تیسری عالمی جنگ  کی طرف دھکیلنے کا باعث بن سکتی ہیں۔   یہ بھی اپنی جگہ اس وقت واضح  ہے کہ  روس یوکرائن کے ساتھ سرحد پر   اپنے اکتالیسویں  عسکری یونٹ کی شکل میں ایک بڑی فوج کھڑی کر چکا ہے اور خبریں ہیں کہ  تمام خدشات اور خطرات کو نظر انداز کرتے ہوئے جنوری 2022 میں یوکرائن پر حملہ کر کے  اس پر قبضہ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔  فی الحال تو امریکہ اسے مختلف پابندیاں لگانے کی دھمکیاں دے رہا ہے  اور روس خود بھی اپنے اس قسم کے قبضے کے ارادے سے انکار کر رہا ہے، لیکن یوکرائن سے منسلک روسی مفادات اور روسی صدر پیوٹن کی  مختلف تقریروں اور تحریروں میں خیالات ظاہر کرتے ہیں کہ کچھ بھی ہو سکتا ہے۔

        آپ روس کے  لیے یوکرائن کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ  مشہور سٹریٹجک اینلسٹ  ٹم مارشل نے اپنی حالیہ کتاب  Prisoners of Geography   کے شروع ہی میں روسی صدر پیوٹن پر  فقرے کستے ہوئے تقریباًکچھ یوں کہا:    صدر پیوٹن اگر خدا پر یقین رکھتے ہیں تو یقیناً ہر رات سونے سے پہلے  دعا کے دوران  اس سے پوچھتے ہوں گے کہ آخر تو نے یوکرائن کی سرحد پر پہاڑ کیوں نہیں بنائے۔ اگر ایسا کیا ہوتا تو روس پر یورپ کے اس میدان سے حملہ کرنا اس قدر حوصلہ افزا نہ ہوتا۔ 

        ٹم مارشل کے اس قسم کے فقروں کی ایک وجہ ہے۔  یوکرائن  مشرقی یورپ میں روس کے مغرب کی طرف واقعہ ہے۔   روس کے مغرب میں جو یورپ کا علاقہ ہے اسی طرف سے پچھلے پانچ سو سالوں    میں روس کو حملہ آوروں کا سامنا رہا ہے۔  1605 میں  پولینڈ کے باسیوں نے ان پر حملہ کیا، سوئیڈن  نے 1708 میں ، نپولین کی کمان میں فرانسیسیوں نے 1812 میں اور جرمنی نے دونوں عالمی جنگوں میں۔  روسی پچھلے پانچ سو سالوں میں اوسطاً تینتیس سالوں میں ایک دفعہ  اپنی مغربی سرحدوں پر لڑتے رہے ہیں۔ روس، تمام بڑی طاقتوں کی طرح، اگلے 100 سالوں کے حوالے سے سوچ رہا ہے اور سمجھتا ہے کہ  بدلتے وقت کے ساتھ کچھ بھی ہو سکتا ہے۔

ایک صدی پہلے،  کون سوچ سکتا تھا  کہ امریکی مسلح افواج پولینڈ اور بالٹک ریاستوں میں ماسکو سے سو میل کے فاصلے پر بیس بنائے بیٹھی ہوں گی۔ لیکن آج ایسا ہو چکا ہے۔  تاریخ سے سبق لیتے روس کے خدشات   اس وقت بھی بڑھ جاتے ہیں جب یہ نظر آتا ہے کہ مغربی طاقتیں  ایک ایک کر کے روس کے مغربی ممالک میں سے بیشتر سابقہ وارسو پیکٹ کے  ارکان ممالک کو  یا تو نیٹو کا حصہ بنا چکی ہیں یا یورپی یونین کا۔ جیسا کہ 1999 میں جمہوریہ چیک، ہنگری اور پولینڈ، 2004 میں بلغاریہ، ایسٹونیا، لٹویا، لتھوانیا، رومانیہ اور سلوواکیااور 2009 میں البانیا۔ اب روس کی جنوب مغربی سرحد پر تین ممالک بچتے ہیں جو نیٹو یا یورپی یونین کا حصہ نہیں ہیں، پر ان میں موجود آبادی کا ایک بڑا حصہ چاہتا ہے کہ بن جائے۔ ان میں جورجیا،    مالڈووا اور   یوکرائن شامل ہیں۔ 

  ان  ممالک میں سے کسی کا بھی نیٹو یا یورپی یونین کا حصہ بننے کا مطلب یہ ہے کہ مغربی طاقتیں روس کے سرحد پر آ پہنچی ہیں۔ روس ایسا بالکل بھی نہیں چاہتا۔ جیسے ہی  ان ممالک میں حالات  روس کے ہاتھ سے نکلنے لگتے ہیں تو روس یا تو ان ممالک میں موجود روسی نسل کی آبادی میں موجود اپنے ہامیوں کے ذریعے  بغاوت برپا کروا دیتا ہے یا براہ راست بھی مداخلت کر دیتا ہے۔ 

یوکرائن روس کے لیے   کچھ اور عوامل کی بنیاد پر بھی اہمیت اختیار کر جاتا ہے۔ الجزیرہ  اور ٹی آر ٹی ورلڈ میں چھپے  اسی موضوع پر مضامین کے مطابق روس کی یوکرائن میں دلچسپی کی ایک خاص وجہ تاریخی ہے۔ 

اب جو یوکرائن ہے، روس اور پڑوسی بیلاروس تقریباً 1,200 سال قبل دریائے ڈنائپر کے کنارے پر  معرض وجود  میں آئے تھے۔ اسی وجہ سےپیوٹن بار بار دعویٰ  کرتے ہیں کہ روسی اور یوکرائنی "ایک  قوم" ہیں، جو "روسی تہذیب" کا حصہ ہیں جس میں ہمسایہ ملک بیلاروس بھی شامل ہے۔ بہت سے یوکرائنی اس کے دعووں کو مسترد کرتے ہیں۔ لیکن ماسکو کی حکمران اسٹیبلشمنٹ اس پر بہت جذباتی محسوس ہوتی ہے کیوں کہ کیوان روس نامی پہلی روسی ریاست  بارہویں صدی میں قائم ہوئی تھی۔   یہ علاقہ آج موجودہ یوکرائن  کا دارالحکومت ہے۔

کیوان روس خاندان کے بانی رہنما رورک کو روسی ریاست کے گاڈ فادرز میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔

        یہ تو تاریخ کے تانے بانے ہیں۔ لیکن یوکرائن میں موجود کئی لوگ ایسے ہیں جو اپنے آپ  کو روسیوں سے الگ محسوس کرتے ہیں اور یوکرائن کو آزاد علیحدہ ملک رکھنا چاہتے ہیں۔ وہیں روس کے موقف کی حمایت کرتے کئی لوگ بھی ہیں۔ یوکرائن میں کئی ایسے لوگ بھی آباد ہیں جو روسی زبان بولتے ہیں۔ روس انہیں اپنا شہری مانتا ہے اور  کبھی بھی یوکرائن میں مداخلت کرنا ہو تو ان کی حفاظت کا بہانہ ہی بناتا ہے۔

2013 میں، مشرقی یوکرائن میں  روسی حامیان اور مخالفین کے درمیان بڑھتا ہوا تناؤ  لاوے کی طرح پھٹ گیا۔ تب سے، ماسکو نے روسی علیحدگی پسندوں کی حمایت کی ہے، جنہوں نے مشرقی یوکرائن میں 2014 میں ڈونیٹسک عوامی جمہوریہ کے نام سے اپنی خود مختار ریاست قائم  کر لی۔

2014 میں، پیوٹن نے ایک متنازعہ ریفرنڈم کے بعد یوکرائن سے جزیرہ نما کریمیا، جو بحیرہ اسود میں ایک اسٹریٹجک علاقہ ہے، کا اپنے ساتھ الحاق کر لیا۔

یوکرائن، روس کے حملے کو روکنے کے لیے کچھ نہیں کر سکا کیوں کہ امریکہ اور اس کے مغربی اتحادیوں کی روسی مخالفت محض احتجاج تک محدود رہی۔ ابھی حال ہی میں، روس نے دسیوں ہزار فوجیوں کو یوکرائن کے ساتھ اپنی سرحد پر تعینات کیا ہے، جس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ ایک اور حملہ ہو سکتا ہے۔ اس بار روس   پورے یوکرائن پر قبضے کا ارادہ رکھتاہے۔

روس کے یوکرائن کو پوری طرح اپنے اختیار میں کرنے کی ایک اور وجہ اس کا مغربی کیمپ میں  جانے کا خطرہ بھی ہے۔ یوکرائن تیزی سے ایک مغرب نواز ریاست بن گیا ہے، جس سے ماسکو ناراض ہے۔ روس کو یوکرائن کے اورنج انقلاب اور جارجیا کے روز انقلاب جیسی تحریکوں سے خطرہ محسوس ہوتا ہے، اس خوف سے کہ جمہوریت کے حامی مطالبات روسی فیڈریشن کے دیگر حصوں تک پھیل سکتے ہیں۔ روسی سرکار کے لیے یہ بات بالکل قابل قبول نہیں ہے۔ کیوں کہ اس سے انہیں اپنے ملک میں مغربی طرز کی جمہوریت قائم کرنا ہوگی اور میڈیا کی نام نہاد آزادی جیسے اقدامات بھی کرنا ہوں گے۔ صدر پیوٹن پھر اس طرح کی حکمرانی نہیں کر پائیں گے جیسے وہ پچھلے بیس بائس سال سے کر رہے ہیں۔

                یوکرائن کے پاس ایک اور چیز بھی اسے روس کے لیے اہمیت دلا دیتی ہے۔ وہ ہے اس کی گرم پانیوں والی بندرگاہ۔ گو کہ یہ بندرگاہ دراصل کریمیا میں موجود ہے اور جب سے روس نے کریمیا پر قبضہ کیا ہے وہ  اس بندرگاہ کو اپنے کنٹرول میں کیے ہوئے ہے لیکن اگر یوکرائن یورپی طاقتوں کے ہاتھ چڑھتا ہے تو اس کا سیدھا سیدھا مطلب ہو گا کہ گرم  پانیوں کی اس بندرگاہ پر نیٹو نیول بیس بنے گی۔ روسی صدر کا یوکرائن میں باقاعدہ نیٹو کی آمد   کے کسی بھی خطرے پر سیخ پا  ہونے کی وجہ یہی  ہے۔ Sevastopol کی بندرگاہ  یوکرائن کے علاقے میں وہ واحد بندرگاہ ہے جس کے ذریعے روس گرم پانیوں تک رسائی حاصل کرتا ہے۔ اس کے علاوہ چاہے اس کی  بندرگاہ بحر منجمد شمالی  میں ہو یا بحر الکاہل  میں، سال کے بیشتر حصے میں برف سے ڈھکی رہتی ہیں۔ Sevastopol   کے ذریعے  روس بارہ ماہ تجارت کر سکتا ہے۔

        یوکرائن کی انہی سب چیزوں نے ناصرف اسے روس کے لیے اہمیت کا حامل بنا دیا ہے بلکہ عالمی طاقتوں کے مابین پروکسی سٹیٹ بھی بنا دیا ہے۔ سب اپنے من چاہے مفادات یوکرائن سے وصول کرنا چاہ رہے ہیں۔  لیکن عدم استحکام عام عوام کی زندگیوں میں کیا زہر گھول رہا ہے اس  کے بارے میں  سوچنے کے لیے کوئی بھی   تیارنہیں۔

متعلقہ عنوانات