رخسار کے پرتو سے بجلی کی نئی دھج ہے
رخسار کے پرتو سے بجلی کی نئی دھج ہے
کیوں آنکھ جھپکتی ہے کیا سامنے سورج ہے
دنیا کی زمینوں سے اے چرخ تو کیا واقف
اک اک یہاں پنہاں کاؤس ہے ایرج ہے
دروازے پہ اس بت کے سو بار ہمیں جانا
اپنا تو یہی کعبہ اپنا تو یہی حج ہے
اے ابروئے جاناں تو اتنا تو بتا ہم کو
کس رخ سے کریں سجدہ قبلے میں ذرا کج ہے
انصاف کرو لوگو انصاف کرو پیارو
شاعرؔ کی زمانے میں دنیا سے نئی دھج ہے