رک دیکھ یار کھینچ لے تصویر وقت پر

رک دیکھ یار کھینچ لے تصویر وقت پر
اخروٹ توڑتی ہے گلہری درخت پر


شاید کہیں سے ابر کرم کا ظہور ہو
دریا پہ ایک آنکھ لگا ایک دشت پر


کھڑکی میں صبح وادیٔ کیلاش کا ظہور
اترے اودھ کی شام کسی روز تخت پر


رتھ سے ہتھیلیوں پہ اترتی ارے غضب
مخمل گھسیٹتی ہے زمین کرخت پر


گل سرخ رنگ گھاس ہری نیلگوں فلک
اے کردگار شکر ترے بندوبست پر


تخلیق کا طلسم کبھی دیکھنے چلیں
ہم آخر الزماں بھی ہیں باب الست پر