ریت اور سمندر
اس روز اچانک میری ملاقات پریش سے ہو گئی۔ پورے پانچ برسوں بعد وہ مجھے مرینا بیچ پر مل گیا۔ وہ سمندر کمے کنارے کھڑا دور سے آئے ہوئے کسی جہاز کودیکھ رہا تھا۔ پریش کودیکھ کر نہ جانے کیوں مجھے محسوس ہوتا ہے کہ برسوں بعد میں اپنے سے ملاقات کررہاہوں۔ ورنہ ہر روز دوسرے لوگوں کے قصے ، دوسرے دیشوں کی باتیں، اردگرد پھیلی ہوئی زندگی کی خبریں لکھ کر مجھے ایسا احساس ہونے لگا۔ جیسے میری کوئی ہستی نہیں میں محض ایک کیمرہ ہوں جو ہر لمحہ ہرچیز کی تصویر اتاررہا ہے جو اس کے سامنے آگئی ہے۔ اور انہیں الفاظ کی صورت میں اخبار کے صفحوں پرکولتار کی طرح انڈیل رہاہے۔ دوسرے روز ہی وہ تصویریں اتنی پرانی اتنی دھندلی پڑجاتی ہیں جیسے برسوں پرانے کسی چہرے کی تصویریں ہوں۔ کرم خوردہ، ماضی کی دھول سے اٹا چہرہ بے نام، بے جان، بے حس۔
پریش سے میری ملاقات اچانک ہوئی تھی۔ میں دلی کی جلا دینے والی گرمی اور بے مصرف ہماہمی سے بھاگ کر نینی تال گیا ہوا تھا۔ مجھے کسی ہوٹل میں جگہ نہیں ملی۔ مجبوراً کسی دوسرے کے ساتھ ایک ہی کمرے میں رہنا پڑا اور یہ کوئی دوسرا پریش تھا جو دھیرے دھیرے میری زندگی کی پر مسرت یاد بن گیا۔ لیکن اس کے ساتھ گھومنے کا اتفاق مجھے بہت کم ہوا۔ کیونکہ وہ عام طور پرکمرے میں ہی بیٹھارہتا اور پڑھتا رہتا یا تنہا شطرنج کھیلا کرتا۔
ایک روز میں نے پریش کودعوت نامہ دیا۔ پاٹ کلب میں ناچ کاخاص پروگرام تھا۔ میں نے اس سے چلنے کے لیے کہا لیکن اس کاوہی جواب تھا، فرصت نہیں۔ ’’وہاں کتنے لوگ ہوں گے۔ رنگ برنگ لباسوں میں شوخ و شنگ لڑکیاں نوجوان ، خوبصورت‘‘۔ میں نے کہا۔
’’پروگرام تو بڑا شاندار ہے۔ لیکن مجھے یہ کتاب ختم کرنی ہے، موڈ بناہوا ہے‘‘۔ پریش نے جواب دیا۔ اورپھر کتاب پڑھنے میں مشغول ہوگیا۔ حالانکہ جس لڑکی سے پریش کومتعارف کرانے کی دعوت دی تھی۔ اس کی اک نگاہ کے لیے لوگ ترستے تھے۔ میں نے اس کے حسن کا بڑا شاعرانہ تذکرہ کیا اور کہا کہ اس کی بانہوں میں آدمی یوں محسوس کرتا ہے جیسے قوس قزح پرجھول رہا ہے۔ لیکن اس کا جواب وہی تھا کہ آج اس کتاب کو ختم کرنا ضروری ہے۔ یہ کتاب میرے رگ و پے میں سرایت کررہی ہے۔ اور میں اس لذت سے محروم نہیں رہنا چاہتا۔
میں اکیلے ہی یاٹ کلب چلا گیا۔ نندنی میرا انتظار کررہی ہوگی۔ سنہرے کٹے بالوں اورگہری بلوری آنکھوں والی لڑکی کا نام نندنی تھا۔لانبا قد، چھریرا بدن، ہلکا سنولایا گورارنگ۔ جب وہ پاس سے گذر جاتے تو محسوس ہوتا کہ سرخ گلاب کی پنکھڑی جسم کوچھو کر نکل گئی ہے۔ نینی تال میں نندنی کی پرکشش شخصیت کا چرچا ہر جگہ تھا۔ فلیٹس میں، کافی بارمیں، یاٹ کلب میں، مال پر،جھیل کے کنارے، ریستورانوں میں، جہاں آدمی ملتے تھے نندنی کے حسن کاذکر ناگزیر تھا۔ فلیٹس پرتولوگ نندنی کے انتظار میں اس طرح کھڑے ہوجاتے تھے۔ جیسے گرمی کے دنوں میں جھلسے ہوئے بدن ہوا کے ایک جھونکے کی تمنا میں ہوں اور نندنی ٹوٹتے ستارے کی نظر ڈالتی پھول سے قدموں سے آگے بڑھ جاتی ۔
جب میں یاٹ کلب پہنچا تو بجلی کی سب روشنیاں جل چکی تھیں۔ تیز مگر نرم روشینوں میں مرد اور عورتیں خوش گپیاں کررہے تھے۔چم چم کرتی ہوئی زندگی میں رنگ اور خوشبو کی لہریں اڑرہی تھیں۔۔۔ دو چار جوڑے کسی کارنر میں یاصوفے پرنیم روشنی میں سرگوشیاں کررہے تھے۔ موسیقی شروع ہو چکی تھی ۔ ہلکے آسمانی رنگ کی ساری پہنے سفید موتیوں کے چمکتے ہوئے ٹاپس لگائے نندنی ہال میں گھوم رہی تھی۔ جب ناچ شروع ہوا تو وہ میرے قریب آگئی۔ اس کے قدم آرکسٹرا کی لہروں پر تھرکنے لگے۔
ناچ ختم ہونے کے بعد ہم باہر آگئے۔ وہ میرے ساتھ ساتھ میرے ہوٹل تک آئی۔ راستے بھر ہم خاموش رہے۔ باہر ہوا سرد تھی اور چاند ابھی پوری طرح نمودار نہیں ہوا تھا۔ کبھی کبھی کوئی آدمی سایہ ساگذر جاتا تھا۔ جب ہم ہوٹل پہنچے تو پریش کرسی پر بیٹھا کتاب پڑھ رہا تھا۔ اس نے ہماری طرف دیکھا اور آنکھوںہی آنکھوں میں ہمارا سواگت کیا اور پھر کتاب پڑھنے میں مشغول ہوگیا۔ میں نے پریش کا تعارف نندنی سے کریا ’’مسٹر پریش زندگی میں کچھ اس تیز رفتاری سے چلے ہیں کہ پہیہ ڈھری سے اترگیا۔ اور اب مسلسل گھوم رہا ہے۔ بے سمت بے منزل، بے ارادہ‘‘۔
’’شاید کبھی کوئی منزل مل جائے‘‘۔ نندنی نے کہا۔
’’شاید۔۔۔‘‘ میں نے کہا۔
’’کونسی کتاب پڑھ رہے ہیں‘‘۔ نندنی نے پوچھا۔
’’ہر میں ہیس کے سدھارتھ‘‘ پریش بولا۔
پھر نہ جانے کس بات پر پریش اورنندنی کی بحث شروع ہوگئی۔ پریش نے کسی کتاب کاحوالہ دیا اورنندنی نے فوراً جواب دیا۔
’’مسٹر پریش زندگی کامطالعہ کسی دوسرے کی کتاب سے نہیں ہوسکتا‘‘۔
’’ہر عظیم کتاب زندگی کے دائرے کووسیع کرتی ہے، گہرا کری ہے، نئے معنی دیتی ہے‘‘۔ پریش نے کہا۔
’’یہ سب بے عمل، شکست خوردہ ذہن کی دلیلیں ہیں‘‘۔ نندنی اب جوش میں بول رہی تھی۔
’’ہلکے نیم روشن کمروں میں سرگوشیاں کرتے ہوئے، رقص کرتے ہوئے کودتے ہوئے جسم کا لمس محسوس کرتے ہوئے اور لمحہ بہ لمحہ ایک دوسرے میں مدغم ہوتے ہوئے تجربے کے سوا زندگی میں اور کچھ اہم نہیں سمے میں ڈوبے ہوئے مدہوش جواں پیکروں کا لذت سے ٹوٹ جانا ہی حقیقت ہے زندگی کی۔۔۔ اور جو لوگ اس لذت سے محروم ہو جاتے ہیں یا اس قابل نہیں ہوتے۔ وہ کتاب کی مصنوعی زندگی میں پناہ ڈھونڈتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ انہیں روشنی مل گئی ہے‘‘۔ نندنی کا پورا وجود بول رہا تھا۔
پریش نے سگریٹ سلگائی اور پھر دھیرے سے بولا۔
’’ہر ذی حس آدمی زندگی سے کتاب کی طرف آتا ہے اور پھر کتاب سے زندگی کی طرف۔ یہ مسلسل عمل ہے۔ شخصیت کی تکمیل کا، اس کی وسعت کا‘‘۔
’’میں نے کافی بنائی، اور پھر ہم سب کافی پینے لگے۔ اس دوران میں کوئی بات نہیں ہوئی۔ جب نندنی واپس جانے لگی تو پریش بولا۔ ’’اگر جلدی نہ ہو توتھوڑی دیر باہر گھاس پر بیٹھ جائیے۔ وعدہ ہے کہ بحث نہیں ہوگی نہ کتاب پرا ور نہ زندگی پر‘‘۔اس نے نندنی کی طرف دیکھا اور مسکرا دیا۔
ہم باہر لان پر بیٹھ گئے۔ ہر ی ہری گھاس پر ابھی بھی اوس پڑنا شروع ہوئی تھی۔ چیڑ کے درختوں سے چاندنی لپٹ رہی تھی۔ آسمان بہت گہرا نیلا تھا اور ستارے روشن تھے۔ سفید چاندنی کے جھلملاتے ٹکڑوں سے، سامنے جھیل میں ایک شہر بس رہا تھا۔ ایک اجنبی شہر کی پرچھائیاں، اندھیروں، روشنیوں، کھمبوں، کشتیوں، آدمیوں، سایوں سمیت مکمل شہر، چاروں طرف مکمل سناٹاتھا۔ جیسے ساری چہل پہل کی زندگی کسی غار میں سرک گئی ہو۔ دور پہاڑ گم سم دیوار سے کٹہرے تھے اور سرد ہوا پیڑوں کو چیرتی ہوئی ہماری جسموں کو ہلور رہی تھی۔اس سنسان پرسکون سناٹے میں جیسے ہم بہت نرم ہو گئے تھے ۔ بہت ہلکے پرندوں کی طرح اور پھر ہم اس گہرے سناٹے میں جذب ہوگئے۔۔۔ اچانک پریش بولا ’’ہوا سرد ہونے لگی ہے چلا جائے‘‘۔
ہم جیسے کسی خواب سے چونک پڑے اور ایک دوسرے کی طرف حیرت سے دیکھنے لگے کہ یہ آواز کہاں سے آئی ہے ہم سب اٹھ بیٹھے۔ میں نندنی کو چھوڑنے دور تک اس کے ساتھ گیا۔
جب میںواپس آیا تو پریش سوچکا تھا۔ اس کے ہاتھ میں بند کتاب تھی۔ دوسرے روز سے دلی واپس جانا تھا اور وہ اپنا سامان پیک کرنے میں مشغول رہا۔ میرا پروگرام چائنا پیک جانے کا تھا۔ اس لیے صبح صبح ہی روانہ ہوگیا۔ اور جب واپس آیا تو پریش جا چکا تھا۔
میں نندنی سے ملنے اس کے ہوٹل گیا۔ میں نے دستک دی۔ لیکن کوئی جواب نہیں ملا۔ دروازہ نیم وا تھا۔ میں اندر داخل ہوا۔ وہ کمرے میں نہیں ملی۔ کمرہ بالکل خالی تھا۔ میںنے ہوٹل کے منیجر سے پوچھا۔ اس نے بتایا کہ وہ نینی تال سے چلی گئی ہے اور پھر دھیرے سے بولا جیسے کوئی راز کی بات کہہ رہا ہو۔ رات بھروہ باہر لان پر سرد چاندنی میں بیٹھی رہی۔ ایک شال اوڑھے ہوئے صبح اس نے بیرے سے چائے منگوائی اور سامان پیک کر وایا۔ اور کچھ کہے بغیر چلی گئی۔
میں واپس اپنے ہوٹل آگیا۔ نندنی اتنی جلدی کیوں چلی گئی۔ اس کا اتنی جلدی جانے کا کوئی پروگرام نہیں تھا۔ نندنی کے بغیر شامیں کتنی اداس ہوں گی۔ پریش بھی جاچکا تھا۔ مجھے شدید تنہائی کا احساس ہوا میرے ذہن میں پریش کی کئی تصویریں ابھررہی تھیں ہر ی ہری گھاس پر بیٹھے ہوئے درختوں پر کھلتے ہوئے پھول دیکھتے ہوئے پرندوں کا گیت سنتے ہوئے، پہاڑیوں کی چوٹیوں پر برف پر پھسلتی کرنوں کا ناچ دیکھتے ہوئے، گرتے ہوئے پانی کا سنگیت سنتے ہوئے جھیل کے کنارے پانی میں تیرتے چاند ستاروں کے دئیے جلتے ہوئے دیکھتے ہوئے، آرام کرسی پر نیم دراز کتاب پڑھتے ہوئے، کسی تصویر کے سامنے گم سم کھڑے ہوئے چاندنی رات میں تنہا بھیگتے ہوئے، چائے پیتے پیتے بحث کرتے ہوئے، کتنی یادیں وابستہ تھیں ان سے۔ آج اچانک اسے دیکھ کر میں فرط خوشی سے اچھل پڑا۔ اور اس سے لپٹ گیا۔
’’پریش‘‘۔ میں چلایا۔
’’ہیلو ڈئیر تم یہاں کیسے‘‘۔ اس نے پوچھا۔
میں نے بتایا کہ ایک کانفرنس کے سلسلے میں آیا ہوں۔ پھرہم سمندر کے کنارے بیٹھے بڑی دیر تک باتیں کرتے رہے۔
ہمارے سامنے دور دور تک سمندر پھیلا ہوا تھا۔ اس کا گہر نیلا رنگ سیاہی مائل ہو رہا تھا۔ اس کے دوسرے کنارے پر لہریں آسمان کو چھورہی تھی۔ لہریں چاندنی کی دیوار سی اٹھ کر کنارے پر آکر پھیل جاتیں اور پھر واپس لوٹ جائیں۔ کنارے کی ریت بار بار بھیگ جاتی۔ بائیں طرف سمندر میں ایک جہاز لنگر ڈالے کھڑا تھا۔ اکیلا کسی خیال میں ڈوبا ہوا۔ شام کے دھندلکے میں جہاز کی روشنیاں جھلملانے لگیں۔ سمندر میں جیسے روشنی کے جزیرے ابھر آئے ہوں۔ اور ہم باتیں کررہے تھے۔ بیتے ہوئے پانچ برسوں کی باتوں باتوں میں نندنی کاذکر آگیا۔
’’معلوم نہیں آج کل نندنی کہاں ہے۔ تمہارے چلے جانے کے بعد وہ اسی روز اچانک نینی تال چھوڑ کرچلی گئی‘‘۔ میں نے کہا۔
’’الہٰ آباد میں ہے۔ سنا ہے کوئی کتاب لکھ رہی ہے‘‘۔ پریش نے بتایا۔
’’کتاب‘‘۔ میں چونکا۔’’نندنی اور کتاب۔ کتاب تو اس کے کمرے میں محض ایک ڈیکوریشن پیس کے سوا کچھ نہیں‘‘۔ میں نے کہا۔
’’ہر آدمی کو زندگی میں ایک ایسا لمحہ آتاہے۔ جب اس کی ساری زندگی ایک کتاب بن جاتی ہے۔ اگر وہ اس لمحے کو گرفت میں لے آئے تو آرٹسٹ بن جاتا ہے۔ اور اگرکھودے توہجوم میں ایک چہرہ۔ جو کسی دوسرے چہرے سے مختلف نہیں ہوتا‘‘۔
پریش نے کہا۔
’’کیا نندنی سے تمہاری ملاقات ہوئی ہے‘‘۔ میں نے پوچھا۔
پریش نے جیب سے ایک کتاب نکالی جس کی پشت پرلکھاتھا۔
If i stepped out of my body, I would breaks into blossom.
نیچے نندنی کا نام لکھا تھا۔ پریش کے لیے ۔
مجھے پریش اور نندنی کی بحث یاد آرہی تھی۔ اور پھر وہ رات جب ہم چاندنی میں باہر گھاس پر خاموش بیٹھے بڑی دیر تک اوس میں بھیگتے رہے۔
’’پریش ایک بات پوچھوں‘‘۔ میں نے کہا ’’نندنی سے تمہارا رشتہ کیا ہے؟‘‘
’’رشتہ‘‘ پریش زور سے ہنسا۔ ’’اسے سمجھنے کے لیے ہی تو وہ کتاب لکھ رہی ہے اور میں سمندر کے کنارے کھڑا اس کی گہرائی اور وسعت کا اندازہ لہروں کے مدوجز ر سے لگانے کی کوشش کررہا ہوں‘‘۔
میں نے سمندر کی جانب دیکھا۔ اور پھر پریش کی طرف۔۔۔ دور دو آدمی ایک کشتی کو کنارے پر لارہے تھے ۔ سائے کی طرح کشتی لہروں کی سطح پرکبھی ابھرتی اور کبھی ڈوب جاتی۔
اور کنارے کی ریت بار بار بھیگ رہی تھی۔