رنج و الم کے باب کا عنوان عشق ہے

رنج و الم کے باب کا عنوان عشق ہے
ایثار کے نصاب کا عنوان عشق ہے


اغیار کا خیال جو دل سے نکال دے
حرمت کے اس سراب کا عنوان عشق ہے


محسوس آفتاب کی جس سے نہ ہو تپش
گیسو کے اس سحاب کا عنوان عشق ہے


ہر دم تیار ہے جو کرائے کو سر قلم
ایسے جری شباب کا عنوان عشق ہے


انجام گرچہ طور ہے خواہش کے باب کا
دیدار بے حجاب کا عنوان عشق ہے


پہلے گزر ہو آگ سے پانی سے خاک سے
پھر جاوداں خطاب کا عنوان عشق ہے


ظلمات سے نکال کے صہباؔ جو نور دے
روشن اسی کتاب کا عنوان عشق ہے