رہ رواں کہتے ہیں جس کو جرس محمل ہے

رہ رواں کہتے ہیں جس کو جرس محمل ہے
محنت‌ راہ سے نالاں وہ ہمارا دل ہے


موج سے بیش نہیں ہستیٔ وہمی کی نمود
صفحۂ دہر پہ گویا یہ خط باطل ہے


کچھ تعین نہیں اس راہ میں جوں ریگ رواں
جس جگہ بیٹھ گئے اپنی وہی منزل ہے


آستیں حشر کے دن خون سے تر ہو جس کی
یہ یقیں جانیو اس کو کہ مرا قاتل ہے


کھول دو عقدۂ کونین بقاؔ کے پل میں
یا علیؑ تم کو یہ آساں ہے اسے مشکل ہے